ملمع کاری سے بچ کے

مجھے کریانے سے متعلق تمام سودا سلف چچا جان اسلم سے ہی لینا پسند ہے، میں نے ہمیشہ انہیں ایماندار تاجر ہی پایا جو ناپ تول میں کمی بیشی نہیں کرتا اور پیمانہ بھر کے دیتا ہے۔ ابیہہ ہمیشہ ڈاکٹر محمود سے دوا لیا کرتی ہے اسے ڈاکٹر کا پوری توجہ اور یکسوئی سے مسئلہ سننا اور مشورہ دینا بہت پسند ہے۔

ایسا آپ کے ارد گرد بھی ہوتا ہے نا ! آپ ایک بار کے تجربے یا بعض اوقات صرف مشاہدے اور کبھی محض دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے ٹھگ دکاندار سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ اب آپ خیر خواہی کا حق یوں ادا کرتے ہیں کہ اپنے قریبی لوگوں سے اپنے مشاہدے و تجربے کا تذکرہ کرتے ہیں انھیں ٹھگ بازوں سے مطلع کرتے ہیں اور نبض شناس طبیب کی جانب رہنمائی کرتے ہیں۔ گویا دو فطری خصوصیات اچھائی کے پرچار میں معاون ہوتی ہے۔

1: ذاتی اصلاح

2: خیر خواہی

یہی دو خصوصیات اصلاح ملت اور قومی ایشوز میں بھی ہمیں مطلوب ہیں ۔ سوچنے کی بات ہے کہ حکمران کا چناؤ بھیڑ چال کا شکار کیوں ہو جاتا ہے۔ ہم سمجھ بوجھ رکھنے والے با شعور لوگ آخر ملی معاملے میں اتنی سطحی سوچ کیوں رکھتے ہیں۔ ہم جو ملمع کاری کے مزاج شناس ہیں۔ ناخالص دودھ یا ملاوٹ شدہ اشیاء کو خالص کے نام پر بیچنے والے ملمع کاروں کی بدولت، اور کبھی اپنے عزیزوں، دوستوں کے ملمع کار رویوں کی بدولت جو اپنے اندر کے غلط جذبات کو بھلائی چنا کر پیش کرتے ہیں۔ اپنے معاشرے کے ان ملمع کاروں سے اکثرو بیشتر ہم بناء کچھ کہے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں، کبھی محض نظر انداز کر دیتے ہیں ہم ان کی ملمع کاری کا شعور رکھنے کی بدولت ان کے ظاہری حلیے اور مصنوعی چہروں سے دھوکا نہیں کھاتے۔ لیکن قومی معاملات میں ہم اچھے برے کی پہچان ہی کھو دیتے ہیں، ہم ملمع کاری اور بغیر ملمع کاری۔ صاف اور سیدھے نظریے کو سپورٹ ہی نہیں کرتے۔ یہ کیسے ممکن ہے اپنے ذاتی معاملات تو نک سک سے چلانے کی خاطر ہم ہر ہر ملمع کار سے بچ کر رہتے ہیں لیکن قومی ملی معاملات میں ہمارے قلب ایسی تڑپ سے نا آشنا ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یقینا ان معاملات کی بھی ہم سمجھ رکھتے ہیں، یقینا ہم اچھے سیاست دان اور برے سیاستدان کی صفات سے بھی آگاہ ہیں۔ ہم جانتے ہیں ان میں سے جو ملمع کار ہیں اور جو ملت کے حقیقی خیر خواہ ہیں۔

حیرت ہے نا کہ زکوٰۃ صدقات جمع کروانے کے لئے ہم ایماندار اور کرپٹ میں بخوبی تمیز کر لیتے ہیں۔ ہم اصلاح ملت کی خاطر کیے جانے والے اجتماع کی رونق کا باعث بھی بنتے ہیں لیکن انہی مصلح لوگوں کی راہ کی دیوار بھی ہم ہی بنتے ہیں۔ ہمارا حال ان نا سمجھ اور نادان بچوں سے کچھ مختلف نہیں جو اصلی اور جعلی شے کی پہچان رکھتے ہوئے بھی جعلی شے خرید کر کبھی تو چند روپے بچانے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی ہلکی شے کی زیادہ مقدار ان کی توجہ کھینچ لیتی ہے، کبھی جعلی شے رنگ و روپ کی دلکشی کی بدولت ان کی توجہ کھینچتی ہے۔ کبھی جعلی شے پر درج خوش نما فقرات انہیں دھوکہ دے جاتے ہیں۔ ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ اپنا احتساب کرے اور دیکھے کہ آیا وہ ملمع کاروں میں سے تو نہیں ؟ ایک بات تو یقینی ہے نا لوگو ! یا تو ہم ملمع کار ہیں یا نادان بچے۔ بہرحال ہم ان دونوں میں سے جو کچھ بھی ہیں ملت کے خیر خواہ بہر حال نہیں ہیں۔ آئیے اس بار ملمع کو اپنے چہروں سے بھی اور امیدواروں کے چہروں سے بھی نوچ ڈالیں۔ آئیے اس بار نادان و نا سمجھ بچے کی بجائے سمجھدار اور بالغ نظر ہونے کا ثبوت دیں جو رنگ والے لالی پاپ نہ بیچتا ہے نا خریدتا ہے اور اوروں کو بھی اس کے نقصانات سے آگاہ کر کے اسے خریدنے سے باز رکھتا ہے۔