قیمت کیا ہے؟

اس کی کیا قیمت ہے؟ میں نے ایک فانوس اٹھا کر اسکی قیمت جاننا چاہی۔ میزبان نے اسکی ایک لاکھ قیمت بتائی۔میرا دیکھنے کا زاویہ مذید پسندیدگی سے بھرپور ہو گیا ۔یہ صرف میرے ساتھ نہیں بلکہ ہر دوسرے تیسرے شخص کے ساتھ یہی معاملہ ہے کہ وہ چیزوں کی پائیداری کا اندازہ قیمت۔برانڈز سے لگاتا ہے، معاشرے کی دوڑ نے اسے قیمتوں میں بانٹ دیا ہے ۔جتنا انسان کے پاس مال ہوگا اسکی قیمت ہماری زندگیوں میں بھی ذیادہ ہوگی۔ اور وہ ہماری ہر محفل میں باعزت کہلا ئے گا۔

انسان کا یہ معیار نہایت جھوٹاہے انسان کو اسکے انسانی وجود کی بناء پر اہمیت حاصل نہیں بلکہ اسکے پاس موجود مادی اشیاء کی بناء پر اسکا مقام و مرتبہ بڑھانے کا آجکل رواج بن چکا ہے۔ یہ فضا ہمارے معاشرے میں سرایت کر گئی ہے۔ مادی چکا چوند نے انسان کو قیمتوں میں بانٹ دیا ہے۔ جو جتنا مالی فائدہ دے سکتا ہے وہ ہمارے لیے بہت قیمتی بن جاتا ہے۔ اور جو مادی فائدے کے بجائے روحانی فائدہ دے سکتا ہے یعنی دکھ درد میں شریک اچھا سامع۔ دعاؤں میں دوسروں کو یاد رکھنے والا۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر مدد کرنے والا۔ ایسے شخصں کی ساری خدمات میں پانی پھیر دیا جاتا ہے کیونکہ وہ نظر آنے والا ظاہری مادی فائدہ نہیں دے پاتا۔ لہذا اس کی ساری ریاضت بے قیمت ہوتی ہے نہ ہی وہ قابل تبصرہ و تعریف ہوتی ہے۔ بلکہ اس کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

ہم نے انسان کو بحیثیت انسان کے درجہ دینا چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے ہر انسان مال کی محبت میں اپنے پیار کرنے والے رشتوں کو چھوڑ رہا ہے۔ انسان جتنا مال سے قریب ہوتا جا رہا ہے اتنا ہی وہ اپنے اندر تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ معیشت کے دوڑ میں اپنے آپ کو کھپا کر اپنی انسانیت کو سلا دیا ہے جب تک مال و دنیا کو اس کے حدودو مقام میں نہ رکھا جائے وہ فساد برپا کئے رکھتا ہے اسکی مثال ایسی ہے جیسے : دنیاو مال کی مثال پانی جیسی ہے پانی کے بغیر کشتی نہیں چل سکتی، اسی طرح انسان کو بھی زندہ رہنے کے لیے دنیاو مال ضروری ہے لیکن اس طرح پانی کشتی کے لیے اس وقت تک فائدہ مند ہے جب تک وہ پانی کشتی کے نیچے ہے اور اس کے دائیں طرف بائیں طرف اس کے آگے اور پیچھے پانی اس کشتی کو چلائے گا لیکن اگر وہ پانی کشتی کے اندر داخل ہو گیا تو کشتی کو ڈبو دے گا اس طرح سازوسامان اورمال کی محبت دل میں آ گئی تو ہمیں ڈبو دے گا۔

ہر چیز کا مقام متعین کرنے کی ضرورت ہے انسان اشرف المخلوقات کے درجے میں فائز کیا گیا ہے کائنات کی ہر چیز کے لئے مسخر کر دی گئی ہے اس سے فائدہ اٹھانا اس کا بنیادی حق ہے لیکن اس کی محبت کو دل میں بٹھانے کی وجہ سے وہ اپنا مرتبہ اور عزت کھو دیتا ہے صحابہ کرام نے دنیا کی محبت کو ٹھکرا کر آخرت کی محبت کو ترجیح دی۔ تب ہی دنیا ان کے پیچھے پیچھے آئی۔

قیصر وکسریٰ کی شان و شوکت سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے انکے دربار جانے کے لئے کبھی شاہانہ لباس نہیں پہنا بلکہ اپنے اسی سادہ لباس میں بادشاہ روم سے ملاقات کرتے۔ ایک دفعہ دربار میں کھانا کھایا حضرت عمر ہاتھ سے کھانے سے ذرا بھی عار محسوس نہیں کیا صحابی نے کہا کہ آپ ہاتھ سے کھارہے ہیں تو أپ نے جواب دیا کہ ان کی وجہ سے میں سنت رسول کو نہیں چھوڑ سکتا ۔ صحابہ کرام کو اپنے عمل پر پورا اعتماد تھا کہ ہم اللہ و رسول کی خوشنودی کو سامنے رکھے ہوئے ہیں جو ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی کا باعث ہے اسی میں نجات ہے۔ اسلئے وہ کسی سے مرعوب نہیں ہوئے اور اپنی پوری دنیا میں دھاک بٹھائی مورخ نے انکے کردار و اخلاق کو بے مول کہا جو اللہ و رسول کی تعلیمات کے سواء کسی راستہ کو نہیں اپناتے۔ کسی کفرو باطل کے آگے نہیں جھکتے انکو شکست دینا مشکل ترین امر ٹھہرا نہ ہی مال۔ متاع سے مرعوب نہ جان کا خوف۔ بلکہ دیوانہ وار اللہ کی راہ میں شہید ہونے کے لیے تیار ایسے لوگوں کی دنیا کوئی قیمت نہیں لگا سکی انہوں نے ہی تو اشرف المخلوقات کا صیحیح مرتبہ سمجھا اور دنیا کو دکھایا کہ مومن مال کے پیچھے نہیں بھاگتا اور اسکی قیمت جنت کے بالا خانے ہیں اسی کے گرد کی ساری زندگی کی جدوجہد ہوتی ہے ہماری زندگی کی جدوجہد کس طرف ہے؟