والدین

جگہ جگہ آغوش اور اولڈ ھومز بن گیے ہیں، یہ کوئی خوش آئند بات نہیں مسلم ملک و معاشرے میں جو این جی اوزعطیات پر چلا رہی ہیں، اتنے اولڈ ھومز دیکھ کر دل دکھتا ہے اور ڈر بھی لگتا ہے، ہم بوڑھے ہونگے تو ہمارے بچے ہم سے تنگ آکر اپنے بچوں اور بیویوں کی وجہ سے ہمیں بھی یہاں نہ جمع کروائیں۔

گھر سے ایک دن دور رہنا کتنا مشکل ہے، اپنے گھر کی ایک ایک اینٹ آپ نے محبت، محنت اور اپنی کتنی ہی خواہشوں کی قربانی سے لگائی ہوتی ہے، آپ کے خوابوں کا محل آپ سے چھین لیا جائے تو کیسا لگتا ہے، جب انہیں اپنے ہی گھر سے بے دخل کردیا جائے، کس حوصلے سے لوگ ان اولڈ ہومز میں رہتے ہیں، بچوں کو ان کا ماہانہ خرچہ دینا آسان لگتا ہے اپنی جنت کھو کر صرف چند سالوں کے مہمان والدین کی خدمت سے کتراتے ہیں، انہیں ان کے  والدین نے  بیس پچیس سال تک پڑھایا لکھایا ہوتا ہے اور اپنے بچوں کی ذمہ داریوں نبھایا ہوتا ہے اور اولاد مشکل وقت یعنی بڑھاپے میں نظر بچاتی ہے، چھوٹا بیٹا بڑے بھائی کی ذمہ داری کہتا ہے بڑا چھوٹے کی یا پھر خدمت بہنیں کریں، بہوؤں کی ذمہ داری نہیں، والدین اور خصوصاً ماں کی خدمات بھلا دیتے ہیں۔ والد جنت کا دروازہ اور ماں کے قدموں تلے جنت اپنی ناعلمی اور بے صبری کی وجہ سے کھو دیتے ہیں۔

سنو ماں جو گرمی جاڑا، خزاں بہار، دن رات اور صبح شام اپنی ذات کو کرچی کرچی کردیتی ہے، کتنی بھی پڑھی لکھی ہو مگر اپنی پہچان کی نفی کردیتی ہے اولاد کےلیے، اگرچہ وہ بہن بیٹی اور بہو بھی ہے مگر “ماں ” بننے کے بعد اس رشتے پر کسی اور رشتے کی اہمیت اور رنگ اتنا پکا نہیں چڑھتا جتنا پکا رنگ ماں کے روپ کا ہوتا ہے، اور یہ رشتہ اسے ساری دنیا سے بے نیاز کر دیتا ہے،باقی دوسرے رشتوں سے یہاں تک اس کے اپنے والدین تک بھی ثانوی ہو جاتے ہیں۔ بچوں سے پچاس اور ساٹھ سال تک ماں برداشت ہو جاتی ہے جب تک اس میں کام کرنے کی طاقت موجود رہتی ہے۔ جیسے ہی وہ کمزور ہو جاتی ہے وہ بوجھ اور گھر کا فالتو سامان بلکہ ناکارہ ہو جاتی ہے۔

بہوؤں کے بچے جب دس بارہ سال کے ہو جاتے ہیں تو وہ مضبوط ہوجاتی ہیں وہ شوہروں کے سر چڑھ کر بولتی ہیں اتنے سال ہوگئے آپ کی ماں کی غلامی اور جی جی حضوری کرتے اب ہم تھک گئے ہیں، اب ان کا رعب یا قانون نہیں جلے گا اب چلتا کریں۔ دوسرے بھائی پر بھی ماں کی ذمہ داری ڈالیں، نہیں تو اولڈ ہوم میں بھیج دیں ہمیں بھی سکون چاہیے۔

کتنا بڑا ظلم اور گناہ ہے ماں کی ایک رات جگائی کا بدلہ آپ ساری زندگی نہیں ادا کرسکتے،وہ کتنی راتیںآپ کے لیے جاگتی ہے، اپنی بیماری بھول کربچوں کی تیمارداری کرتی ہے، ایسی ماں کی خدمت کا صلہ تو ہم ساری زندگی نہیں ادا کرسکتے، اللہ تعالٰی والدین کو اولڈ ہوم بھیجنے والوں کی مغفرت کیسے فرمائے گا آخرت میں ان کی لیے درد ناک عذاب تیار ہوگا۔