اظہار رائے پر پابندی

وزیراعظم شہباز شریف کو برسر اقتدار آئے ہوئے، اب تقریبادو ماہ  ہونے والے ہیں، انھوں نے عوام کو  مہنگائی  سے نجات دلانے، بجلی کی قیمتوں میں کمی، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، پیٹرول ڈیزل کے قیمتوں  میں کمی ، اشیائے ضرورت کو عوام الناس تک باآسانی رسائی، کے جو وعدے  کیے تھے ان سے وہ  یکسر منحرف ہوچکے ہیں، اور انہوں نے عوام کو مہنگائی کا تحفہ دیا، پیٹرول اور بجلی گیس کے نرخوں میں وہ ہوشربا اضافے کیے ہیں، جس نے ہر غریب اور متوسط طبقے کے ساتھ ساتھ امیروں کے بھی ہوش اڑا دیئے ہیں۔ انھیں سب سے زیادہ  پریشانی  سوشل میڈیا  اور ذرائع ابلاغ سے تھی، جس کے بڑے بڑے نام پہلے ہی ان کی حمایت  میں رطب السان تھے۔

زبانوں اور قلم سے  دن رات عمران خان کی حکومت کے خلاف زہر اگلنے والے، اب یا تو خاموش ہیں، یا پھر حکومت  کی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں۔ شہباز شریف  نے حکومت میں آنے کے فورا بعد مخالف پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے ، ایک مہم شروع کی تھی، جس میں ان کے  حکم پر برقی خطوط ای میلز، بلاگز اور سماجی رابطے (Social Media)کے ذریعے حکومت مخالف جذبات کا اظہار کرنے والوں کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) نے پکڑ دھکڑ شروع کی۔ اس مہم کے بارے میں کہا  جا رہا تھا کہ کاروائی ریاست کے خلاف منفی اور جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف کی جارہی ہے۔ لیکن اپنے مخالفین کی زباں بندی کیلیے یہی دلیل ہر حکومت پیش کرتی چلی آئی ہے۔ اس مہم میں بھی یہی دیکھنے میں آیا۔ میڈیا میں عکس وہی نظر آتا ہے، جو آپ کا اصل چہرہ ہے۔

اس لیے ضرورت اس امر کی رہتی ہے کہ حکمران  آئینہ دیکھ کر اپنے چہرے کے داغ ٹھیک کر لیں، اور شیشہ توڑ کروجیہ بننے کی کوشش نہ کریں، ایسی خواہش خلل دماغ کے سوا کچھ نہیں۔ یہی مشورہ اداروں کیلئے بھی ہے۔ جنہیں اب تک یہ سبق یاد نہیں ہوسکا کہ “آ زادی اظہار رائے انسان کا بنیادی حق ہے” اور اس سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا ہے، اور نہ کسی کی زبان بندی کی جاسکتی ہے۔پی ٹی آئی کے  ڈاکٹر ارسلان خالد  اور ان کے ساتھیوں کے خلاف  کریک ڈاؤن بہت زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔ لیکن  اس کے باوجود اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ  زوروں پر ہے۔  سوشل میڈیا پر جو کچھ بھی چل رہا ہے، وہ ہمارے ملک ، فوج،  ریاستی اداروں ، ملک کے نظریاتی تشخص کے لیے ایک نہایت سنگین ہے، باجوہ  کے نام سے سوشل میڈیا پر جو مہم چل رہی ہے، اور جس میں غداری کا سرٹیفیکیٹ دیا جارہا ہے، لیکن ان میں بہت سے”  اپنے” ہیں۔ جو بوقت ضرورت کام آتے ہیں، اسی لیے انھیں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔

سائیبر کرائم کا قانون موجود ہونے کے باوجود  اس پر کتنا عمل ہورہا ہے، اس کا اندازہ آپ ٹوئیٹر پر گذشتہ دو ماہ سے جاری رہنےوالے ٹرینڈ کو دیکھ کر کرسکتے ہیں۔  کریک ڈاؤن کا فیصلہ کرنے والوں نے “پنڈی کے …..” نام سے ٹرینڈ چلانے والوں کو تو کچھ  نہ کہا، نہ ہی اس شخص کو جو لندن سے بیٹھ کر جنرل باجوہ جنرل باجوہ فیض حمید فیض حمید کی گردان سناتا تھا اور جس کی ویڈیوز آج بھی چل رہی ہیں۔ آپ نے کچھ  نہ کہا، بلکہ ان  کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔  جلسے میں “یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے” کے نعرے لگوانے والی خاتون بھی آج کل پس پردہ اور اعلانیہ  سابق فوجیوں کی مراعات ختم کرنے کے احکامات صادر کررہی ہیں، انھیں ہر طرح کی سہولت میسر ہے۔جس شخص کی عدالت پیشی پر نعرے لگے تھے” باجوہ کتا ہائے ہائے” وہ تو آج اقتدار کے سنگھاسن پر تشریف فرما ہے۔

کل جوشخص اسلام آباد میں کھڑے ہو کر صحافیوں کے درمیان آئی ایس آئی کو گالیاں دے رہا تھا۔ وہ تو اب آپ کےپسندیدہ ہیں۔  کل  جس سیاست دان نے یہ دھمکی دی تھی کہ “ہم جی ایچ کیو کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے” وہ اب آپ کے اتحادی ہیں۔ آپ کی پالیسی وقت اور ضرورت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے، ملک، قوم، عوام سے زیادہ آپ کو  اپنے مفادات عزیز ہیں، اس ملک میں حقیقی جمہوریت  اگر کسی پارٹی میں ہے تو وہ واحد سیاسی جماعت، جماعت اسلامی ہے۔ جو محب وطن ہے، اور اپنے سینے پر قربانیوں کے نشان سجائے ہوئے ہے۔ جماعت اسلامی آج بھی آئین اور حق کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ اپنا  جد ا موقف  رکھتی ہے، جماعت اسلامی  نہ حکومت کی طرفدار ہے نہ اپوزیشن کی،  جماعت اسلامی آئین پاکستان کی طرفدار ہے اور عوام کی آواز ہے۔

یہ جماعت ہی ہے جس کا واحد سینٹر مشتاق احمد خان  ہی ہے، جو ایوان بالا میں حق  کااظہار کررہا ہے، جو  اس بات کو بار بار کہتا ہے کہ.. ہم چاہتے ہیں کہ آئین محفوظ ہو، اس میں اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے، اس میں اسلامی شقیں موجود ہیں، یہ آئین عقیدہ ختم نبوت  کے تحفظ کی ضمانت ہے، اس کی حفاظت کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔ جو ملک سے سود کے خاتمے  اور اشرافیہ  کی لوٹ مار کے خلاف بول رہا ہے، جماعت اسلامی کی گدڑی میں سراج الحق جیسے درویش، مولانا ہدایت اللہ جیسے سرفروش، عبدالرشید جیسے بے باک لیڈر اور حافظ نعیم الرحمان جیسے نڈر اور  بے خوف لیڈر موجود ہیں۔ اس لیے اس جماعت کا راستہ مت روکیے، ماضی میں آپ نے جو فیصلے کیئے ان سے ملک اور قوم کو بہت نقصان پہنچا ہے، حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ  بانٹنا بند کیجئے، حقیقی قیادت کا راستہ مت روکیئے،  صرف سیاسی انتقام کے لیے اپنے مخالفین کو اٹھانے کی روش کو ختم کیجئے۔ تاکہ یہ ملک مسائل اور مصیبتوں سے نکل کر خوشحالی کی طرف بڑھے۔

حصہ
mm
عطا محمد تبسم سینئر صحافی، کالم نگار ہیں،وہ خرم بدر کے قلمی نام سے بھی معروف ہیں اور ان کئی کتابیں، قاضی حسین احمد انقلابی قیادت، محبتوں کا سفر رپوژ تاژ کاروان دعوت و محبت،سید مودودی کی سیاسی زندگی، پروفیسر غفور احمد،محبتوں کا سفیر سراج الحق عوام میں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں، مارکیٹنگ کے موضوع پر ان کی تین کتابیں فروخت کا فن، مارکیٹنگ کے گر، اور مارکیٹنگ کے 60 نکات اور 60 منٹ ان کے ان کے اصل نام سے شائع ہوچکی ہیں۔وہ ایک ٹی وی چینل کی ادارت کی ٹیم کا حصہ ہیں۔جنگ، جسارت، نوائے وقت ایکسپریس، جہاں پاکستان میں ان کے کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ وہ ایک اچھے بلاگر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ بیمہ کار میگزین اور بیمہ کار ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔