پیارے حمزہ!

ڈرامہ سیریل “پیارے افضل” سے شہرت پانے والے اداکار حمزہ علی عباسی صاحب بہت باصلاحیت آدمی ہیں۔میں ذاتی طور پر ان کا مداح ہوں۔

حمزہ علی عباسی صاحب دعوی کرتے ہیں کہ وہ CSS امتحان بھی پاس کرچکے تھے اور پولیس میں افسر لگ چکے تھے لیکن اداکاری کے شوق کی خاطر انہوں نے سول سروس چھوڑ دی۔

حمزہ علی عباسی صاحب تحریک انصاف کا حصہ رہے، دھرنوں میں ناچتے رہے، لیکن افسوس کہ پی ٹی آئی کی حکومت آئی اور چلی بھی گئی، لیکن یہ کوئی وزارت نہ پاسکے، اس کا مجھے افورس رہے گا،

ایک بار “آج ٹی وی” کے شو میں اعلانیہ قادیانیوں کی حمایت بھی کرچکے ہیں۔۔۔

اور اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی ان کی کئی ویڈیو موجود ہیں

حضرتِ موصوف نے فلموں میں بھی کام کرنے کی کوشش کی، تھوڑی بہت کامیابی بھی ملی، لیکن بطور “فلم اسٹار” انڈسٹری کے اسٹیک ہولڈر نہ بن سکے۔

اب حمزہ علی عباسی صاحب نے “مذہب” کا مطالعہ شروع کردیاہ،  واللہ جب کوئی شخص مذہب کا مطالعہ شروع کرتا ہے تو ہم خوش ہوتے ہیں۔

لیکن جب کوئی “فلم اسٹار” مطالعے کے دوران ہی قطعیت کے ساتھ الٹی سیدھی آراء دینا شروع کرتا ہے تو ہمیں گھبراہٹ شروع ہوجاتی ہے، کیوں کہ ایک فلم اسٹار سیکڑوں جاہلوں کا ایمان برباد کردیتا ہے۔

اب آتے ہیں حمزہ علی عباسی صاحب کی تازہ ترین مذہبی دریافتوں کی جانب: یاد رہے کہ حمزہ علی عباسی نے قطعیت کے ساتھ صرف دعوے درج کیے ہیں (حوالہ دینے کا تکلف کہیں بھی نہیں کیا).

حمزہ علی عباسی صاحب فرماتے ہیں کہ: اسلام میں مرتد کی سزا موت نہیں ہے، اسلام میں توہین خدا یا توہین رسالت یا توہین مذہب کی کوئی سزا شریعت میں مقرر نہیں ہے، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے وقت عمر 17 سے 19 برس کے درمیان تھی، اسلام میں اداکاری اور موسیقی کے تمام اصناف کی اجازت ہے (لیکن چند شرطوں کے ساتھ) ۔۔۔۔۔ {یہ شرطیں انہوں نے انہیں بتائیں]۔ مسلمان کو غیر مسلم کے ساتھ لڑنا {شاید یہ جہاد کی جانب اشارہ کرنا چاہ رہے ہوں گے} جائز نہیں۔ہاں کفار اگر ظلم کرتے ہوں تو سیلف ڈیفنس میں اس کی اجازت ہے،

اسلام کو سیاسی طور پر بزور طاقت نافذ نہیں کیا جاسکتا،کفار کو سیاسی یا ملٹری طاقت سے مرعوب کرکے اسلام کی جانب مائل نہیں کیا جاسکتا،سیدنا عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں، اس لیے وہ دوبارہ نہیں آئیں گے اور کوئی امام مہدی بھی نہیں آئے گا۔۔

حمزہ علی عباسی نے دوسرے پیراگراف میں یہ بھی کہہ دیا کہ مسلمانوں کی اکثریت ان خیالات کو قبول نہیں کرے گی اور بہت سارے لوگ الزام لگائیں گے کہ یہ ماڈرن لبرل مغربی دنیا کو خوش کرنے کی کوشش ہے اور یہ اسلام کو مسخ کرنے جیسا ہے اور حمزہ علی عباسی صاحب کہتے ہیں کہ گالیاں دینے کے بجائے، نیتیوں کو جانچنے کے بجائے اخلاص کے ساتھ کسی چیز کا تجزیہ کیا جائے۔

حضور! ہم آپ کو گالی نہیں دیتے، ہم الزام بھی نہیں لگاتے۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیے۔ آپ نے جو دعوے کیے ہیں۔ اس کے ریفرینس دیجیئے، اس پر ہمارے سوالات کے جواب دیجیئے اور اپنے دعوؤں کو ثابت کیجیئے یا آپ ہم سے سوالات کرلیں۔

ہم آپ کو سنیں گے۔ آپ میرٹ پر بات کیجیئے لیکن آپ کسی criteria پر آئیں تو سہی۔آپ نے اپنی پوسٹ کی سب سے آخری لائن میں غامدی صاحب کے یوٹیوب چینل اورفیس بک پیج کا حوالہ دے دیا۔یہ اچھا مذاق کیا، غامدی صاحب کو پڑھنے اور سننے کے بعداور  اخلاص کے ساتھ غامدی صاحب کی باتوں پر غور کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوں کہ غامدی صاحب کے بیانات میں “تضادات کی کثرت” ہے۔

کوئی اندھا مقلد یا اندھا متعصب ہی ان متضاد باتوں پر یقین کرسکتا ہے اور ہم کوئی اندھے بہرے نہیں ہیں،باقی ہماری دعائیں اور نیک خواہشات حمزہ علی عباسی کے ساتھ ہیں۔