جعلی دانشوروں کی پہچان

جعلی دانشور(Pseduo Intellectual)؛۔

Pseudo یونانی لفظ Pseudesسے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے” جھوٹا،جھوٹ بولنا“۔جس لفظ کے بھی آگے pseudoآئے گا اس سے جعلی ،مصنوعی ،کاذب یا فرضیمعنی اخذ کیے جائے گئے ۔مثلاً Pseudonym(تخلص) ایک فرضی نام ہوتا ہے عام طور پر جسے مصنف یا شاعر استعمال کرتے ہیں۔مثال کے طور پر ایک اور اصطلاح(لفظ)سیوڈو سائنس(PseudoScience)،جسے عقائد یا رسومات کے ایک ایسا مجموعہ کے اظہار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کے ذریعے ان رسومات کو سائنس یا سائنسی طریقوں پر مبنی ہونے کا ”سوانگ “رچایا جاتا ہے۔اس طرح اس سابقے سے کئی دیگر الفاظ و اصطلاحیں بھی وجود میں آتی ہیں جس میں آج کا ہمارا لفظ ”سیوڈوانٹیلیکچولseduo Intellectualبھی شامل ہے۔میریم ویب سٹر(Merriam-Webster) ڈکشنری کے مطابق جعلی دانشور(سیوڈو انٹیلیکچول Pseudo Intellectual) سے مراد ایک ایسا شخص جو حقیقت میں ذہین یا صاحب علم نہیں ہوتا لیکن چاہتا ہے کہ اسے ایک ذہین اور صاحب علم شخص کے طور پر جانا اور پہچانا جائے۔باالفاظ دیگر جعلی دانشور مرادایسے افراد ہوتے ہیں جو خود کو اپنی ذہانت سے زیادہ ذہین ظاہر و ثابت کرنے کی کوشش اور اداکاری میں مصروف رہتے ہیں۔ذیل میں جعلی و حقیقی دانشوروں کے اوصاف کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔

حقیقی و جعلی دانشور کی لغوی تعریف و تفریق:۔

کولنز انگلش ڈکشنری میں”دانشور“ کو اسم اور صفت دونوں کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ بطور اسم دانشور سے مراد ایک ایسا شخص جو پیچیدہ،گنجلک خیالات کا مطالعہ اور ان پر غور و فکر کرنے میں بہت زیادہ وقت صرف کرتا ہے۔“بطور صفت یہ اصطلاح مذکورہ بالا خیالات وافراد سے متعلق اشیاءکے بیان و اظہار کے لیے استعمال ہوتی ہے مثلاً ایک پروفیسرکو فکری سرگرمیوں سے لطف حاصل ہوتاہے(The Professor enjoys the intellectual pursuits)۔متذکرہ تعریف تشبیہات و وضاحتوں کی بنیادپر وثوق سے کہا جاسکتاہے کہ ایک جعلی یا مصنوعی دانشور (سیوڈوانٹلیکچول) ایک ایسا فرد ہوتا ہے جو پیچیدہ مسائل و نظریات پر غوروخوص کرنے اور انھیں سمجھنے کا ”ڈھونگ“ رچاتا ہے جسے دراصل حقیقی دانشور ہی سوچ، سمجھ اور حل کرسکتے ہیں۔امریکی صحافی سڈنی ہیرس نے کئی سال پہلے لکھے اپنے ایک مضمون “Telling the Real From the Pseudo”کے ذریعے حقیقی اور جعلی دانشوروں کے درمیان پائے جانے والے کئی اختلافات و امتیازات پرمفصل بحث کی ہے ۔جس کے مطابق حقیقی دانشوردرست سوالات کا انتخاب کرتے ہیں اس کے برعکس جعلی دانشورہر سوال کے درست جوابات اپنے پاس موجود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

حقیقی دانشورسچائی کی تلاش کو اہمیت دیتے ہیں جب کہ سیوڈوخود کو صحیح بتانے یا صحیح ثابت کرنے میںدلچسپی رکھتے ہیں۔

حقیقی دانشورتسلیم کرتے ہیں کہ وہ سب کچھ نہیں جانتے جبکہ جعلی دانشور ہر موضوع کا علم رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

حقیقی دانشور تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیشہ مخالف رائے و نظریات غلط نہیں ہوتے۔

جعلی دانشوروں مخالف رائے و نظریات کوکوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ان کی نظر ہمیشہ ”صحیح و غلط “اور ”سیا ہ و سفید“پر ٹکی رہتی ہے۔

حقیقی دانشور ہمیشہ حاضرین و سامعین کے معیار و سطح کو ملحوظ رکھ کر بات کرتے ہیں جب کہ جعلی دانشور اپنی بڑائی ثابت کرنے اور سامعین و حاضرین کو متاثر کرنے کی نیت سے معیار و سطح کو کبھی ملحوظ نہیں رکھتے۔ مذکورہ نکات کی روشنی میں ہیرس کا موازنہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔حقیقی دانشور کسی بھی شئے کی گہری تفہیم حاصل کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں جبکہ جعلی دانشوروں کوہمیشہ اپنی شبہیہ(امیج) او راپنا تاثر (امپریشن) قائم کرنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ذیل میں جعلی دانشوروں( سیوڈوانٹیلیکچولس) کی پہچان و شناخت میں معاون چند خصوصیات و علامتیں بیان کی جارہی ہیں ۔

1۔جعلی دانشوردوسروں کو مطلع نہیں متاثر کرنا چاہتے ہیں۔

جعلی دانشوروں کے لیے معلومات کی فراہمی سے زیادہ عوام کو متاثر کرنااہم ہوتا ہے۔وہ پیچیدہ الفاظ اور فقروں کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیںچاہے وہ سیاق و سباق سے باہر ہی کیوں نہ ہوں۔لوگوں پر اپنی زبان دانی اور وسیع ذخیرہ الفاظ کی دھاک جمانا ان کا خاص مقصد ہوتا ہے۔ آپ صاف محسوس کریں گے کہ دوران گفتگو وہ معلومات و نظریات کی ترسیل کی کوشش کے بجائے آپ کو متاثر کرنے کی جستجو میں مصروف رہتے ہیں۔

2۔جعلی دانشوربڑے نام و بڑے حوالوں کے شیدائی ہوتے ہیں۔ہمیشہ دوران گفتگو بڑے دانشوروں و نظریہ ساز افراد کے اقوال جیساکہ سگمنڈفرائیڈ /جان لاک نے کہاوغیرہ کے ذریعے اپنی گفتگو کو معتبر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ کوئی قابل گرفت وقابل اعتراض بات نہیں ہے کہ انھوں نے ان افراد کے اصل نظریات و تصورات کوپڑھا ہے سمجھا ہے یا نہیں۔ہمیںاعتراض اس بات پر ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ معروف علما ءکے نظریات و خیالات سے آگہی پیدا کیے بغیر صرف ان کے نام کی مالا جپنے سے وہ علقمندا و روشن خیال کیسے تصور کرلیے جائیں گے۔ جعلی دانشور اسی لیے دانشوروں کے نظریات و خیالات تک رسائی پیدا کرنے کے بجائے صرف ان کے نام کے استعمال سے عوام کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں ۔آج تک کوئی بھی انسان کسی بھی دانشور کے نام کی مالا جپنے سے ذکی،ہوشیار اور ذی عقل نہیں بنا ہے اور نہ بن سکتا ہے۔

3۔جعلی دانشور کبھی خود کو دانشوارانہ مشاغل و سرگرمیوں میں مصروف نہیں رکھتے۔

حقیقی دانشور ہمیشہ خود کودانشوری کے حصول میں مسلسل مصروف رکھتے ہیں۔ حقیقی ریسرچ اسکالرس ،طلبہ، محقق، سائنس دان وغیرہ اپنے میدان کار میں نہ صرف مسلسل محنت کرتے رہتے ہیں بلکہ اپنے کام میں ہمیشہ مخلص اور پرجوش بھی رہتے ہیں۔اپنے پسندیدہ موضوعات ومضامین کے معلومات کو معتبر و مفید بنانے اور عصری ایجاد و دریافت سے آگہی کے حصول کے لیے ہمیشہ مطالعہ میں لگے رہتے ہیں۔اس کے برعکس جعلی دانشور خود کو کبھی محنت و مشقت میں نہیں ڈالتے بلکہ بلند بانگ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے ارسطو،سقراط ،بقراط،افلاطون،رازی ،غزالی، غالب،اقبال، شیکسپیئر ،ملٹن ورڈس ورتھ وغیر ہ کی تمام تصانیف کا مطالعہ کیا ہے۔ان کی گفتگو مشہور کردار اور حوالوں سے ہمیشہ بھری رہتی ہے۔درحقیقت ان کتابوں تک ان کی کبھی رسائی ہی نہیں ہوتی ہے۔ اکثریہ معروف نظریات پر مبنی مشہور بڑی کتابوں کے متعلق چندخلاصے پڑھے ہوتے ہیں یا پھر ان عنوانات و مضامین پر چند معروف مقررین کی ویڈیوز و فلموں کو دیکھا ہوتا ہے۔

4۔جعلی دانشور گفتگو کے دوران مداخلت کرتے ہیں۔

یہ اکثرگفتگو کے دوران مخل ہو جاتے ہیں۔گفتگو کو ہائی جیک (اڑالیتے) کرلیتے ہیں۔بات کرنے والوں کو درمیان میں ہی ٹوک دیتے ہیں اور انھیں اپنی بات مکمل کرنے نہیں دیتے ۔جعلی دانشوردوسروں کو بحث میں ان کا حصہ ڈالنے کا بہت ہی کم موقع فراہم کرتے ہیں۔چاہے کوئی مضمون، موضوع یا کوئی موقع ہووہ کہیں بھی اپنی فطرت سے باز نہیں آتے۔

5۔بحث و حجت کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔

جعلی دانشوروں کے لیے بحث مباحث وحجت دل پسند شئے ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں کواپنے دلائل کے جال میں پھانس کر اپنی ”فکری صلاحیتیں“ کوبہتر طریقے سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جعلی دانشورکسی بھی کوئی بھی موضوع چاہے وہ سیاست، مذہب، فلسفہ، جدید ٹیکنالوجی یا کچھ اور ہمیشہ ہر موضوع کا حصہ بننے تیار رہتے ہیں۔

6۔نمائشی اصول پسندی

جعلی دانشوران زبان و بیان کی ظاہری و نمائشی اصولوں کے پرستار ہوتے ہیں۔ لوگوںکی نظرانداز کی جانے والی غلطیوں جیسے قواعد( گرائمر ) واملا کی اغلاط، تحریری و تقریری خرابیوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ معمولی سے معمولی سی معمولی غلطی جس کا موضوع سے کوئی تعلق نہ ہو، اسے بھی طشت ازبام کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ اغلاط پر تنقیدیں کرتے ہیں یا پھر زبردستی ان کی اصلاح کے خواہش رکھتے ہیں ۔ ایسے ناقدین کو انگریزی میںگرائمرنازی Grammar Nazi کہاجاتا ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ” یہ اس طرح کیوں کرتے ہیں ؟“ وہ اس لیے کہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ صحیح سمجھتے ہیں،بس اسی لیے۔

7۔جعلی دانشور سب کچھ جاننے کابھی دعویٰ کرتے ہیں

جیساکہ مضمون کے ابتدا میں ہی بتایا گیا ہے کہ جعلی دانشور کے پاس ہر چیز کے بارے میں ہمیشہ کہنے کوکچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔کوئی موقع ہو اور موضوع کچھ بھی ہو ان کے پاس ہمیشہ تمام جوابات موجود رہتے ہیںاگر چیکہ وہ گفتگو کا حصہ ہویانہ ہو، گفتگو میں اپنی ٹانگ اڑانا ان کے لیے باعث فخر ہوتا ہے ۔اگرآپ کو کہیں بھی کوئی کسی بھی صورتحال میں مختلف موضوعات کا کوئی”ماہر“بنتا دکھائی آئے تو آپ مطمئن ہوجائیے کہ آپ ایک جعلی دانشور کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔جعلی دانشور کہیںطب کا ماہر ہوگا توکہیںماہر معاشیات اور کہیں کچھ ۔ سیاسی انتخابات کے زمانے میںخود کو ایک ماہر سیاسی تجزیہ نگار اورمنجھا ہوا سیاست دان ظاہر کرنے کی کوشش کرے گا تو کھیلوں کے مقابلہ جات کے دوران بھی ایک تجربہ کار کھلاڑی کے طور پر اپنی تجزیہ نگاری سے لوگوں کو اپنی قابلیت سے مرعوب کرتا نظرآئے گا۔الغرض جب چاہے ،جہاں چاہے اورجیسا چاہے جعلی دانشوران بلاخوف و ترد دماہر بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

8۔جعلی دانشوراپنے ذاتی نظریے اور شخصی رائے کو مطلق اور ناقابل تبدیل سچ سمجھتے ہیں

جعلی دانشور عموماً اپنی ذاتی آرا ءو خیالات کو مطلق اور ناقابل تردید سچ سمجھتے ہیں۔محفل میں موجود دیگر افراد کے آراءو خیالات کی انھیں کوئی پروا ہوتی ہے اور نہ ان کی کوئی قدر و قیمت۔”تم غلط ہو،میں ٹھیک ہوں“ یہ ہی ان کاطرہ امتیاز ہوتا ہے۔ان کے نزدیک ان کی مخالفت کرنا گویا حق کے خلاف جانا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو نہ صرف صحیح بلکہ حق پر بھی سمجھتے ہیں۔

9۔جعلی دانشور دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے سے معذور ہوتے ہیں

چونکہ سیوڈو دانشور اپنے ذاتی نظریہ کو ہی مطلق سچ سمجھتے ہیں، اس لیے تصویر کے دوسرے پہلو کو دیکھنے سے ہمیشہ قاصر رہتے ہیں۔ہمیشہ بحث ومباحث کے دوران دلائل کو سمجھنے اور دیگر زاویوں پر غور وفکر کرنے کے بجائے بہت زیادہ جوابی ردعمل پیش کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔جعلی دانشوروں سے بحث کرنافضول ہے۔ آپ ان سے بحث کرتے ہوئے ہمیشہ خود کو صرف دائروں کے بیچ گردش کرتے اور گھومتے پائیں گے،ان سے بحث میں ملوث ہوکر آپ کو کبھی بحث سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملے گا۔

10۔جعلی دانشور(سوڈو اینٹلیکچول )مکمل تصویر دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں

زیادہ ترجعلی دانشور ٹنل ویژن(Tunnel Vision)کا شکار ہوتے ہیں۔ٹنل ویژن سے مرادکوتاہ نگاہی ہے یعنی ”آدمی وہی دیکھتا ہے جو وہ دیکھنا پسند کرتا ہے“ ۔ایسے افراد خود سے کسی موضوع پر مختلف نقطہ ہائے نظر سے کبھی غور کرسکتے ہیں اور نہ غور کرنا چاہتے ہیں۔نتیجتاً مکمل تصویردیکھنے اور سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر ہمیشہ محدود رہتا ہے۔جعلی دانشور باریکی بینی کے اتنے عادی ہوتے ہیں کہ نظروں کے سامنے پڑے پہاڑجیسے بڑے بڑے حقائق بھی انھیں نظر نہیں آتے ۔چھوٹی تصویر(Micro Picture)کی تلاش میں ہمیشہ بڑی تصویر(Macro Picture) کو نظرانداز کرجاتے ہیں۔

جیسے جان اور جوزف دونوں دوست چوک گئے تھے۔ جان اور جوزف نے اپنے لیے ایک ایک گھوڑا خریدا اور اسے اپنے گھر کے باہر باندھ دیا۔ دونوں کے گھوڑے ایک دوسرے سے خلط ملط نہ ہوجائے یہ سوچ کر جان اپنے گھوڑے کی کان کی لو کو کاٹ دیتا ہے تاکہ شناخت میں آسانی ہو۔ محلے کے شریر لڑکے رات میں موقع پاکر جوزف کے گھوڑے کے کان کی لو بھی کاٹ دیتے ہیں۔ صبح جب جان نیند سے بیدارہوتا ہے تو جوزف کے گھوڑے کے کان کو بھی کٹا دیکھ کر بہت پریشان ہوجاتا ہے۔ جوزف اس الجھن سے بچنے کے لیے اپنے گھوڑے کی تھوڑی سے دم کاٹ کر اطمینان کا سانس لیتا ہے۔ رات میں شریر بچے پھر سے جان کے گھوڑے کی دم کاٹ دیتے ہیں۔ اب جان اور جوزف بہت فکر مند ہوجاتے ہیں کہ یہ سلسلہ اگر یونہی جاری رہا تو ان کے گھوڑے بے شکل ہوجائیں گے۔جان اور جوزف ہوٹل میں بیٹھ کر اس اہم مسئلہ پر غور وخوص میں مصروف تھے تبھی ایک ویٹرجو قریب کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا کہتا ہے”جناب اس میں اتنا پریشان ہونے والی کونسی بات ہے،کالا گھوڑا آپ کا ہے اور سفید گھوڑا جوزف صاحب کا۔ جعلی دانشور بھی بالکل جان اور جوزف کی طرح باریکی بینی سے اس قدر کام لیتے ہیں کہ وہ اکثر بڑی باتوں کو بالکل فراموش کردیتے ہیں۔   (جاری ہے)۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔