فیصلے کی گھڑی

مایوسی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ مہنگائی مکاٶ مارچ کرنے والے غریب مکاٶ کی پالیسی پر چل رہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 22 کروڑ عوام کو اس ملک کی طاقتور اشرافیہ زندہ درگور کرنے کے لیے کمر کس چکی ہے۔ دو وقت کی روٹی آسمان سے تارے توڑ لانے کے مترادف ہوتی جارہی ہے۔ لوگوں نے گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا ہے جب پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو صرف کراچی شہر کی ٹریفک 28 فیصد کمی ہوئی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ آخری اضافہ نہیں تھا ابھی اس کی قیمتیں مزید بڑھنی ہیں اور غریب کے کاندھے مزید جھک جانے ہیں۔

یہ ہمارے تجربہ کار حکمرانوں کا حال ہے۔ یہ عوام کا دنیا سے قبر کا رشتہ محض چند دنوں میں طے کرارہے ہیں۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ پی ٹی آئی تو آئی ایم ایف کی غلام تھی لیکن آخر آپ کس کی غلامی کررہے ہیں۔ صرف سابق حکومت کو تنقید کا نشانہ بناکر آپ اپنی ذمہ داریوں سے دامن نہیں چھڑا سکتے ہیں۔ اگر طرز حکمرانی یہی ہے کہ ہر چیز کی قیمت بڑھاتے جاٶ اور حکمرانی کرتے جاٶ تو یہ کام تو ہر شخص کرسکتا ہے۔

یہ بات اب ہر کسی کو تسلیم کرلینی چاہیے کہ بھان متی کا کنبہ جوڑ کر یہ حکومت بنانے کا تجربہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں بھی اس ملک میں کوئی دودھ کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں لیکن بہتری کی ایک کوشش ضرور نظر آتی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت ایک ناکام حکومت تھی تو اس کو اپنی مدت پوری کرنے دی جاتی اگلے الیکشن میں عوام خود ہی ان کا احتساب کردیتے لیکن اب عمران خان کو ایک ہیروبنادیا گیا ہے اور اس کی ساڑھے تین سال کی خراب کارکردگی کا ملبہ یہ نام نہاد تجربہ کار حکمران چند روز کے اقتدار کے لیے اٹھانے کو تیار ہوگئے ہیں۔ چند دن کی اس حکمرانی کی سیاسی قیمت انہیں اپنی سوچ سے بھی بڑھ کر ادا کرنا ہوگی۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے لیکن ایسی جمہوریت سےنہیں جہاں اقلیتی ووٹ پر ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ بنادیا جاتا ہے اور 85 ووٹوں والی جماعت وزارت عظمیٰ لے اڑتی ہے۔ یہ کنٹرولڈ جمہوریت ہمیں بہت پیچھے لے کر جارہی ہے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے۔ یہ کوئی90 کی دہائی نہیں ہے جہاں چیزیں لوگوں کی نظروں اوجھل رہ جائیں گیں یہاں سب کو سب کچھ سمجھ میں آرہاہے کہ آخر ہوکیا رہا ہے اور کس لیے ہورہا ہے۔ سیاستدانوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ کب تک پتلیوں کا کردار ادا کرتے رہیں گے اور اس ملک کے طاقتور حلقوں کوبھی اب اپنی سوچ تبدیل کرنا ہوگی۔ معاشی گرداب میں پھنسے پاکستان کے لیے سیاسی افراتفری زہر قاتل ہے اور صاحب اختیار اس حقیقت کا ادراک ہوتے ہوئے بھی کبوتر کی طرح آنکھ بند کیے بیٹھے ہیں۔

موجودہ صورتحال میں سب سے بڑا امتحان ہماری سیاسی جماعتوں کا ہے، ان کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ آگے بھی انہیں کسی کی انگلی پکڑ کر چلنا ہے یا پھر ان میں صلاحیت اور قابلیت موجود ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکیں، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو اس ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے ایک میز پر بیٹھنا ہوگا۔ انہیں اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔ ملک کی یہ تینوں بڑی جماعت ایک نیا میثاق جمہوریت کریں اور ملک کو فوری نئے الیکشن کی طرف لے کر جائیں کیونکہ سیاسی بے چینی کا خاتمہ نئے الیکشن کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے اور اگر سیاسی بے چینی برقرار رہی تو ملک کی تباہ حال معیشت کا پھر خدا ہی حافظ ہے۔ سری لنکا کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے حالات ہمیں خدانخواستہ اسی طرف لے کر جارہے ہیں۔ اگر جلد از جلد انتخابات کی تاریخ پر سیاسی جماعتیں متفق نہ ہوئیں تو اس کے بھیانک نتائج ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑیں گے۔