سیاست،سیاسیات،سیاسی نظام،سماجی تبدیلیوں اور معاشرتی ارتقائی عمل کا اگر کتب التواریخ سے مطالعہ کیا جائے تو ایک عام قاری کے لئے یہ اندازہ لگانااور انبساط کرنا انتہائی مشکل عمل ہو جائے گا کہ سیاسی عمل کے عملاً اطلاق کا سہرا کس قوم کے سر باندھا جائے۔بہرحال اگر سیاسی بلوغت اور معاشرتی تجریدی عمل کی بات کی جائے تو اس کا سہرا قدیم مصری تہذٰب سومیری تہذیب کے سر سجایا جا سکتا ہے۔کیونکہ سومیری تہذیب کو منظم سیاسی ماحول اور خود مختاری کی پہلی سیڑھی کہا جا تا ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس قوم کے علاوہ ایسا تصور ریاست کسی دوسری قوم نے سرے سے دیا ہی نہیں ،اس لئے یاد رکھا جائے کہ قدیم یونانی ریاستوں کا تصور سومیری تہذیب سے اس لحاظ سے بہتر خیال جا تا ہے کہ ان کے ہاں سومیری سے بہتر منظم ریاست و سیاسی نظام کی نشاندہی ہوتی ہے۔کیونکہ یونانی تہذیب نے سب سے پہلے شہری یا فرد کو معاشرہ کا بنیادی رکن خیال کرتے ہوئے کہا کہ فرد ایسی معاشرتی اکائی ہے جس کے بنا معاشرہ کبھی پنپ نہیں سکتا۔
یونانی ریاستوں کے عروج کا نقطہ آغاز 800 سال قبل ا ز مسیح ہوا ۔جس میں شہری کی تعریف،بادشاہ کے اختیارات اور شہروں کی وسعت و اہمیت کا تذکرہ کیا گیا۔تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ اس دور میں دو بڑی ریاستوں کا ذکر خصوصی طور پر ملتا ہے۔ایتھنز اور سپارٹا۔لیکن ان مذکور دو ریاستوںکے نظام اور انداز حیات ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھا۔جیسے کہ اگر یونانی سیاسی عمل یا تاریخ کی بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان ریاستوں کے افراد علم کے بڑے دلدادہ تھے۔اسی لئے اس دھرتی سے بڑے بڑے فلاسفر،دانشور،مجسمہ تراش،ڈرامہ نگار اور سیاسی مفکرین نے جنم لیا جیسا کہ بقراط،سقراط،ارسطو وغیرہ۔اس کے برعکس اگر سپارٹا کی بات کی جائے تو ان کے افراد کے ہاں علم سے زیادہ عسکری قوت کی اہمیت کو زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا۔کیونکہ سپارٹا کے لوگ علم کی طاقت کی بجائے جسمانی و عسکری طاقت پر یقین رکھتے تھے۔کیونکہ ان کی توجہ جسمانی طاقت ،کثرت اور فوجی تربیت پر زیادہ تھی۔اس دور کے تقاضوں کے لحاظ سے ہوسکتا ہے کہ ان کی سوچ بالکل صحیح ہو کہ جسمانی طاقت سے آپ پوری دنیا کو اپنے کنٹرول میں کرسکتے ہیں،کہ اس دور کا تقاضا بھی یہی ہوا کرتا تھا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔لیکن وقت نے ثابت کیا کہ دنیا میں زندہ رہنے کے لئے دونوں طاقتوں کا انسان کے پاس ہونا ضروری ہے۔ان دو طاقتوں کے استعمال سے ہی اب جنگ جیتی جا سکتی ہے۔کیونکہ صحت مند جسم میں ہی صحت مند دماغ پرورش پا سکتا ہے۔اسی لئے یونانی ریاستوں میں شہریوں کی فلاح و بہبود کی طرف زیادہ خیال کیا گیا کہ خوشگوار ماحول انسانی ترقی کے لئے بے حد ضروری ہے۔اور ایسا تبھی ممکن ہو سکتا ہے اگر شہریوں کی سماجی ومعاشی ضروریات اور مسائل کاحل ان کے دروازہ پر مہیا کیا جا سکے۔ایسا کرنے کے لئے شائد یونانی ریاستوں کے کرتا دھرتا نے سوچ لیا کہ اگر شہرمیں شہریوں کی تعداد ایک حد سے تجاوز کر جائے تو نئے شہر آباد کر لئے جانے چاہئے۔تاکہ پرانے شہروں پر کوئی بوجھ نہ پڑے اور وہ اپنے شہریوں کی تعداد کے مطابق ان کو سہولیات فراہم کریں۔
اگر ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی فلاح وبہبود کے عملی اطلاق کا زور اور حل جو اسلام نے پیش کیا وہ زمانہ قدیم میں کوئی قوم پیش کرنے کامیاب نہ ہو سکی۔مسلمانوں کے خلیفہ ثانی حضرت عمر ؓ کا فرمان ہے کہ جب شہروں کی آبادی حد سے تجاوز کرجائے تو نئے شہر آباد کرلیا کریں،کیونکہ جب بھی کسی شہر کی آبادی حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو اس سے آبادی کی گنجانی سے نہ صرف عوام کے لئے معاشی مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ مسائل ناگفتہ بہ ہوجاتے ہیں۔اور آج کے سماجیات دانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ شہروں کی آبادی مناسب حد سے تجاوز کرنے سے ہی تمام معاشی و سماجی مسائل سراٹھاتے ہیں۔حضرت عمر ؓ نے ایسا صرف کہا ہی نہیں بلکہ کوفہ،موصل،بصرہ اور فسطاس جیسے بڑے شہر بھی آباد کئے۔ان سب کے پیچھے عزم صرف ایک ہی تھا کہ کسی طرح سے عام شہریوں کے جان ومال کا تحفظ کیا جا سکے،کیونکہ جس ریاست کے شہری محفوظ نہیں ہوں گے وہ ریاست کبھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکتی۔لیکن جو سیاسی ماحول آجکل چل رہا ہے اس سے تو ی ثابت ہو رہا ہے کہ شہر،شہری اور شاہراہیں کوئی بھی دشمن کی چالوں سے محفوظ نہیں ہے۔بلکہ کبھی کبھار تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ اتنے تو شہر آباد نہیں ہیں جتنی کہ شاہراہیں مصروف ہیں۔خواہ وہ ٹریفک کا بے ہنگم ہجوم ہوکہ کسی سیاسی پارٹی کی ریلی ہو۔حکومت مخالف پارٹی کے احتجاج کا جلوس ہو کہ اقتدار کے نشے میں بد مستی ہاتھی جیسے عام عوام کو گھاس پھوس سمجھتے ہوئے روندنے والے اہلکار۔مقصد شاہراہوں کو مصروف رکھنا ہے۔خواہ ان شاہراہوں پر کسی کا کیسے بھی خون بہے،سرکار کی گولی سے یا حادثہ میں۔
یہ عادی ہو گئی ہیں آدمی کا خون پینے کی،
اب ان آباد سڑکوں سے ویرانے اچھے۔
من حیث القوم ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ شاہراہوں پر شہریوں کا ناحق خون کیوں اور کون بہاتا ہے۔ملکی سیاست اور معاشی حالات اس نہج پر پہنچانے والا کون ہے،کہ جس کی بنا پر شہری معاشی مسائل کی بھرماریا سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے شہروں سے نکل کر شاہراہوں پر چلے آتے ہیں۔اور پھر انہیںشاہراہوں پر کبھی سیاست کی نظر تو کبھی معاشی بدحالی سے تنگ شہری لقمہ اجل بنا دیئے جاتے ہیں۔مقام افسوس یہ ہے کہ جن کون؟کے آلہ کار ہم بنتے ہیں وہ تو سب پرسکون اور پر آسائش زندگی گزار رہے ہیں۔اس کون کوتلاش کون کرے گایہ ایسا سوال ہے جس کا جواب صرف اور صرف عوام کے پاس ہو سکتا ہے اگر ہمارے سیاستدان انہیں جاہلیت سے نکلنے دیں گے تو؟بطور محب وطن پاکستانی ہم عوام کو سوچنا اور سمجھنا چاہئے کہ ہمیں شاہراہوں کی نذر ہونا ہے یا آسودہ حال شہری بن کر شہروں میں پرسکون زندگی گزارنا ہے؟۔