آخر ہم دقیانوس کیوں؟

فیس بک پرایک پوسٹ پر نظر پڑی جس میں ہماری بہن حلیمہ سعدیہ (فیس بک پر ایک تو یہ بھی مصیبت ہے کہ کون بھائی یا بہن یہ بھی پتہ نہیں چلتا اسی گروپ میں ذیشان نامی آئی ڈی پر ہم نام سمجھ کر بے تکلف کمنٹ کیا تو اگلی پوسٹ سے یہ شبہ ہوا یہ تو لڑکی ہے دریافت کرنے پر جواب ملا میں شادی شدہ ہوں ۔برکت کی دعا دے کر بات ختم کی)- بہرحال پوسٹ یہ تھی کہ میں ایک دقیانوسی فیملی سے ہو اور وجہ محترمہ نے یہ لکھی کے ان کے گھر میں ٹی وی نہیں ہے ۔ جبکہ انٹرنیٹ سمیت فون ہر ایک کے پاس ہے اور ایک تحریری جواب لکھنے کا ارادہ کیا کہ اس تحریر کے مطابق تو میں بھی دقیانوسی ہوں۔

کیونکہ ٹی وی تو ہمارے گھر میں بھی نہیں ہے اور موبائل کا محتاط استعمال بچیاں بھی کرتی ہیں مختصر جواب تو میں نے وہاں کمنٹ میں بھی دیا پہلے تو یہ بہتر تھا کہ جو جو اپنے گھر والوں کو دقیانوس سمجھتا ہے وہ انٹرنیٹ پر بھڑاس نکالنے کی بجائے اپنے گھر والوں سے وجہ دریافت کر لے کہ ایسا کیوں ہے کہ ٹی وی گھر میں نہیں ہے ہاں بچوں کو الگ موبائل لے کر دینا میں بھی صحیح نہیں سمجھتا۔ پہلے بات ٹی وی کی کرتے ہیں اہل علم خود مانتے ہیں کہ اس میں خیر بہت کم ہے شر بہت زیادہ ہے ۔خبروں سے شروع کریں تو ہر وقت منفی خبریں حادثات اور نقصانات کا ذکر رہتا ہے اور دوسری معمولی نوعیت کی خبروں کو اشتعال انگیز طریقے سے بیان کرنا تھا کہ وہ زبان زد عام ہو جائے اس کے علاوہ صبح کے پروگرام میں تین تین دفعہ طلاق یافتہ خواتین گھریلو مسائل پر بھولی بھالی خواتین کی رہنمائی کرتی ہیں۔ ڈراموں کا تو کیا ہی کہنا نوجوان بچیوں کی اس طرح ذہن سازی کی جاتی ہے کہ انہیں مغربی کلچر سے لگاؤ اور اسلامی کلچر سے نفرت ہی ہو جاتی ہے

رہی بات موبائل کی تو اس میں بھی بہت سے منفی پہلو ہے مگر اس کا محتاط استعمال فائدہ مند بھی ہے اسی کے ذریعے میں اپنا نقطہ نظر آپ تک پہنچا رہا ہوں موبائل لڑکوں کو اس لیے بھی دیا جاتا ہے کہ رابطے کا آسان ذریعہ ہے والدین پریشانی سے بچنے کے لیے موبائل لے کر دیتے ہیں جیسا کہ میں تعلیمی ادارے سے منسلک ہوں اور بہت سے دور دور سے آنے والے بچے صبح اپنا موبائل جمع کروا دیتے ہیں اور جاتے ہوئے موبائل کا استعمال کرکے بائیکیا کے ذریعے اپنے لیے سواری کا بندوبست کرتے ہیں کرونا کے دنوں میں بھی جو کسی حد تک تعلیمی سلسلہ جاری رہا وہ بھی موبائل ہی کی بدولت تھا آن لائن کلاسز اور واٹس اپ جیسی سہولتوں کے ذریعہ تعلیمی مواد طلبا کو پہنچانا ۔ اس کے علاوہ بھی اس کے بہت سے فائدے ہیں، بہرکیف نقصانات بھی ہیں اور دور حاضر میں کسی حد تک ٹی وی کا متبادل بھی ہے بلکہ اس نے ایک گھریلو جھگڑا بھی ختم کر دیا کہ ہر شخص اپنی پسند کا پروگرام دیکھ سکتا ہے خلاصہ مضمون یہ ہے کہ میں دقیانوس نہیں جدید ٹیکنالوجی کا حامی ہوں والدین اپنے بچوں کو وقت دیں اور چیزوں کے مثبت استعمال کا رجحان ڈالیں۔ تنقید سے پاک صرف ذاتی وضاحت کی کوشش کی ہے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو دلی معذرت۔