مضبوط معیشت سود کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں

وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ جاری کردیا ہے۔ اس فیصلے کے مطابق ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے اور غیر سودی نظام کو فروغ دیا جائے۔

آج کل زیادہ تر کاروبار اور تجارت سودی لین دین پر مشتمل ہے دنیا کے تقریبا تمام ممالک اور بڑے بڑے بینک سود پر رقم ادھار دیتے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں، مدت کے تعین کے ساتھ یعنی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہوا سودی منافع اکثر اوقات اصل رقم سے بھی بڑھ جاتا ہے اور اس کی ادائیگی کرنے والا آخر کار دیوالیہ ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ سودی نظام نے ملکوں کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ۔

پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اس کی بنیاد کلمہ لا الہ الا اللہ پر رکھی گئی ہے اور یہ بات پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ یہاں کوئی قانون ایسا نہیں بنایا جاسکتا جو اللہ کے احکام کے خلاف ہو اور دین اسلام کے منافی ہو۔ سود کی حرمت کے احکام قرآن پاک میں واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں یہاں تک کہ سود کو اللہ اور رسول کے ساتھ جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے جس کا کوئی بھی مسلمان تصور تک نہیں کر سکتا۔ پیغمبر اسلام حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سودی کاروبار اور سودی لین دین کی سختی سے ممانعت فرمائی اور عملی طور پر اسلامی ریاست سے سودی نظام کا خاتمہ کر ڈالا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں نے بھی اپنے اپنےدور حکومت میں سود پر مکمل پابندی عائد کی اور اسے قابل سزا جرم قرار دیا۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اسلام نے تجارت اور معیشت کے میدان میں ایسا نظام متعارف کروایا جو سود سے پاک ہے اور جس کی بنیادباہمی خیر خواہی اور معاشرتی فلاح و بہبود پر مبنی ہے۔ سود سے پاک تجارت پر مشتمل اسلامی نظام تہذیب اور تمدن میں ترقی اور خوشحالی کو فروغ دیتا ہے اور آپس کی خیر خواہی پیار محبت اور اتحاد و اتفاق پر مشتمل معاشرے کی تشکیل میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سودی نظام کی بنیاد مال و دولت کی حرص و ہوس ہے جوخودغرضی معاشی انتشار اور احساس محرومی کو جنم دیتی ہے جس سے معاشرہ بد امنی اور بدحالی کا شکار ہو جاتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد کم ہی حکومتیں ایسی آئیں جنہوں نے سنجیدگی کے ساتھ ملک میں اسلامی نفاذ کی کوششیں کیں یہی وجہ ہے کہ ملک میں سودی نظام پنپتا رہا اور بالآخر اس کے برے ثمرات ملک و قوم کو بھگتنے پڑے۔ مہنگائی، چور بازاری، عوام میں احساس محرومی، غربت میں اضافہ اور پیسے کی ہوس جیسے مسائل سے دوچار ہونے کے بعد ملک کو عالمی بینک سے قرضے لینے پڑے،یہ قرضے سود پر لئے جاتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے سود کی بدولت وطن عزیز قرضوں کے بوجھ تلے دبتا گیا اور آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ملک کا بچہ بچہ آئی ایم ایف کا مقروض ہے۔

اسٹیٹ بینک کا گورنر آئی ایم ایف کی منظوری سے مقرر کیا گیا ہے اور وہ اس کے مطالبات ملک پر مسلط کرنے پر مامور ہے گویا پاکستان کی آزادی اور خودمختاری ان قرضوں کی بدولت ختم ہو کر رہ گئی ہے حکمران اس ساری صورتحال کے آگے مجبور ہیں، رہے عوام تو مہنگائی نے ان کی عقل اور فہم کو اس حد تک مفلوج کر دیا ہے کہ انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آتا؎۔

ان مشکل حالات میں جماعت اسلامی پاکستان نے سود پر پابندی عائد کرنے کے لئے عدالت میں کیس دائر کیا جس پر وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے 27 رمضان کو حکم جاری کیا کہ حکومت ملک سے سود کے خاتمے کے لئے مناسب اقدامات کرے کیوں کہ اس وقت تمام بینک اور خود حکومت کے بہت سے منصوبوں کا انحصار سودی لین دین پر ہے اس لیے بظاہر یہ ایک مشکل کام نظر آتا ہے کہ سود سے نجات حاصل کر لی جائے مگر یہ ناممکن نہیں ہے اور دیکھا جائے تو یہ دین اور ایمان کا تقاضا ہے کہ سود جو ایک حرام چیز ہے اس کو ملک سے بالکل ختم کر دیا جائے۔ اس ضمن میں یہ بات پیش نظر رہے کہ سود بظاہر تو منافع کی بہترین صورت نظر آتی ہے مگر یہ ملکی معیشت کے لیے زہر قاتل ہے سود کی وجہ سے نئےسرمایہ کار کو کاروبار میں پیسہ لگانے اور نئے منصوبے شروع کرنے میں دشواری کاسامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ بینکوں سے قرضہ سود پر ملتا ہے وسائل کی کمی کام کرنے والے افراد کی تنخواہوں اور سہولتوں میں کمی کا سبب بنتی ہے اس کی وجہ سےاشیائے صرف اور پیداوار کی قیمت پر بھی اثرپڑتا ہے.

مہنگائی بڑھنے سے عوام بے چینی کا شکار ہوتی ہے دوسری طرف سود لینے والے بغیر محنت کے آرام سے اپنے مال اور دولت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اس طرح امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ امیروں میں سود لینے کی بدولت خود غرضی اور پیسہ اکٹھا کرنے کی ہو س نے معاشرے میں طبقاتی کشمکش کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے بنیادی ضروریات سی محروم طبقے میں بڑھتا ہوا احساس محرومی معاشرے میں انتشار برپا کر رہا ہے اس طرح سود ہمارے معاشرے میں امن اور سلامتی کے بجائے بگاڑ پیدا کر رہا ہے ۔

سود کی تباہ کاریاں معاشرے میں بگاڑ سے بھی بڑھ کر ملکوں اور قوموں کی تباہی تک پہنچی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کی خبر اخبارات کی زینت بنی۔ سری لنکا جس کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے غیر ملکی قرضوں اور ان پر بڑھتے ہوئے سود کے بوجھ تلے بری طرح دب چکا تھا۔ ان قرضوں اورسود کی ادائیگی ناممکن ہو گئی تو سری لنکا کی معیشت تباہ ہو گئی جس پر اسے دیوالیہ ہونے کا اعلان کرنا پڑا۔

سودی نظام کی بدولت وطن عزیز میں بھی یہی منظر دکھائی دے رہا ہے پیٹرول مہنگا کردیا گیا ہے ٹیکسوں کی وجہ سی اشیائے صرف اور ضروریات زندگی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا ہے تاکہ آئی ایم ایف سے لیا گیا قرضہ ادا کیا جاسکے۔ ان ساری مشکلات کا بنیادی سبب سودی نظام ہے ، ملک کو مہنگائی اور قرضوں کے اس بحران سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ عدالتی فیصلے پر حکومت پوری دلجمعی کے ساتھ عمل کرائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ آنے والا بجٹ سود سے پاک منصوبوں پر مشتمل ہو، تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کے استحکام اور سلامتی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے خاص طور پر سود کے خاتمے کے لیے ایک منظم تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔

یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کے تمام سیاسی جماعتیں سود کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ ہمارے ملک کی معیشت مضبوط ہو سکے، سود کے خاتمے سے چھوٹے سرمایہ دار باآسانی سرمایہ کاری کر سکیں گے اس طرح عوام کو سہولیات میسر آئیں گی اور ملکی معیشت کو بھی استحکام نصیب ہوگا۔