عشقِ حقیقی

ساجد کی ماں او ساجد کی ماں ایک گلاس ٹھنڈا پانی دے دے کھانس کھانس کر گلا خشک ہو گیا ہے، صابر حسین نے ثریا (صابر کی بیوی) کو نحیف سی آواز لگاتے ہوئے پکارا- پاس ہی تو پڑا ہے پانی پی کیوں نہیں لیتے، ثریا نے بے زاری سے کہا- تھوڑا ٹھنڈا پانی دے دے گرمی بہت ہو رہی ہے صابر نے محبت بھرے لہجے سے کہا- کیا مصیبت ہے سکھ کا سانس بھی نہیں لینے دیتا بڈھا ثریا نے بڑ بڑاتے ہوئے کہا صابر نے سب کچھ سننے کے باوجود سنی ان سنی کر دی-

پانی لیتے ہوئے صابر نے پیار بھرے لہجے سے کہا تو آج بھی اتنی ہی خوبصورت ہے جتنی شادی کے وقت تھی نہیں آج میں اس وقت سے زیادہ خوبصورت ہوں، آج میں چار شیروں کی ماں ہوں بھلا ہے کسی کا مقابلہ مجھ سے ثریا نے تحمکانہ اور تکبرانہ انداز سے کہا- صابر ثریا سے عمر میں دس سال بڑا تھا جوانی میں ثریا برادری کی حسین ترین لڑکی تھی بس صابر تو ثریا سے شادی کے لیے اوتاولی ہوا جارہا تھا -برادری میں اچھے سے اچھا رشتہ ثریا کے لیے موجود تھا مگر وہ تو خود صابر کے عشق میں دیوانی ہوئی جارہی تھی- ثریا کے والدین نے ثریا کو بہت سمجھایا مگر بے سود، آ خر کار اس کے والدین نے صابر حسین کو داماد بنا ہی لیا-

صابر اسٹیشن ماسٹر تھا- لگی بندھی تنخواہ، گھر میں چھوٹی سی پرچون کی دکان گزر بسر بہت زیادہ اچھا نہیں تو ایسی کوئی خراب بھی نہیں تھا، شادی کے شروع کے دن تو صابر اور ثریا کے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے- صابر نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر ثریا کو ملک کا کونہ کونہ گھمایا- شروع کے چند سال تو صابر ثریا کو گھر کا کام زیادہ نہ کرنے دیتا تھا کہتا تھا، تیرا دودھ جیسا رنگ کالا ہو جائے گا، ثریا کو خوش رکھنے کی غرض سے صابر دن رات محنت کرتا-

دن گزرتے گئے صابر اور ثریا کو اللّٰہ نے چار اولاد نرینہ سے نوازا – شدیدحبس کا عالم تھا دونوں پنکھے کھلے ہوئے ہونے کے باوجود صابر پسینے میں شرابور اپنے (زندہ لاشے) وجود کی کروٹیں بدلنے لگا- ابھی کل ہی شادی کو 25 سال ہوئے ہیں- لیکن صابر ثریا کی بات سمجھ نہ پایا کہ وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہے،مگر کیسے صابر حسین سوچ رہا تھا-

اس سے پہلے مجازی عشقِ نے باؤلا کیا ہوا تھا اسی وجہ سے وہ ہمیشہ ہی ثریا کی بات من وعن تسلیم کرتا تھا- اب جبکہ صابرحسین چارپائی پر پڑگیا تو عشق مجازی کا پول کھل چکا تھا- اسی وجہ سے صابر کو اب بہت سی باتیں سمجھ آنے لگی تھیں وہ جانتا تھا کہ ثریا کے بالوں میں اترتی سفیدی آنکھوں پر لگا چشمہ بدھا سا جسم چیخ چیخ کر جوانی ڈھلنے کی مژدہ سنا رہا تھا- ثریا کا کوئی بھائی نہیں تھا اس کے والد بھی اکلوتے تھے اور اماں کی بھی صرف بہنیں ہی تھیں لیکن ثریا کے ہاں لگاتار چار لڑکے ہوئے تو ثریا پھولے نہ سماتی تھی- ان میں سے تین تقریبا جوان تھے بس ثریا اسی پر اتراتی تھی- اسے اب بیمار صابر حسین میں کوئی دلچسپی نہ تھی ریٹائرمنٹ کے بعد سے وہ بیمار بھی رہنے لگا تھا-

رات بھر ماضی کے اوراق میں گم رہا اور اپنی کم مائیگی چن چن کر تلاش کرتا رہا- کتنی شدید محبت تھی اسے ثریا سے اس کی محبت میں اس نے اپنے ماں باپ بہن بھائی سب کچھ چھوڑ دیا تھا- ثریا کی ہر دم لڑائی جو رہتی تھی صابر کے گھر والوں سے اسی وجہ سے صابر نےثریا کو الگ گھر لے دیا تھا، تنخوا ملتے ہی ثریا کے ہاتھ پر رکھ دیتا تھا- گھر آکر بھی ثریا کی محبت میں گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا تھا- چاروں لڑکے ماں کے فرمانبردار تھے باپ کے پاس تو ثریا پھٹکنے نہ دیتی کہیں بیمار نہ ہو جائیں-

ثریا سے اتنی محبت کے عوض اسے کیا ملا۔ ایک گلاس پانی کے لئے بھی وہ ترستا ہی رہتا تھا۔ اور ایسی محبت کا کیا فائدہ- صابر اپنے وجود کے بےجان ہونے کی دعائیں کرتا رہتا- دور کہیں سے امام صاحب کی آواز کانوں کو ٹکرائی،

اللہ اکبر اللہ اکبر !

اللہ سب سے بڑا ہے پوری رات ماضی میں کھوئے فجر ہو گئی تھی اے اللہ۔ اے کاش اتنی محبت میں نے تجھ سے کی ہوتی، تیرے لئے جیتا، تیرے لیے خرچ کرتا، تیرے لئے دوڑ دھوپ کرتا، تیرے حکم کی اطاعت میں زندگی گزارتا میری دنیا خراب ہوتی نہ آخرت، صابر حسین نے اپنے لاغر جسم کو چارپائی سے کھینچ کر اتارا پاس ہی نلکے سے لوٹا بھرا، وضو کیا، چادر کھینچ کر بمشکل بچھائی اور اپنا وجود اللہ کے دربار میں رکھ دیا –

اللہ اکبر  ! صابر حسین کو یاد نہیں اس نے آخری بار نماز کب پڑھی تھی لیکن ایسی عشقیہ نماز اس نے پہلے کبھی نہ پڑی تھی آج صابر حسین عشق حقیقی پہچان گیا تھا ایسا عشق جو انسان کو گمراہ نہیں بلکہ کامیابی اور فلاح کا راستہ دکھاتا ہے-