کیسے دلیر ہیں میرے دور کے مسلمان؟ دعویٰ ہے مسلمانی کا اور اعلان جنگ ہے اللہ اور اُسکے رسول کے ساتھ ۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے تمھارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کر لو تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ (سورۃ البقرہ)
یہ کس کا فرمان ہے؟ یہ میرے اور آپکے خالق کا فرمان ہے، جو آخری الہامی کتاب میں موجود ہے۔ کیا سود کو جائز قرار دینے والے قرآن پاک پر ایمان رکھتے ہیں؟ میں تو کہتی ہوں کہ ان کا اللہ پر ایمان ہی ناقص ہے کیونکہ وہ تو فرماتا ہے، اَلَا یَعلَمُ مَن خَلَق، جس نے اس انسان کو پیدا کیا وه زیادہ جانتا ہے کہ اسکے لئے کیا اچھا ہے، اُسکے کرنے کا اُس نے حکم دے دیا۔ اور جو انسان کے لئے اچھا نہیں اُس سے منع کر دیا ۔ پھر اس میں حیل و حجت کیسی؟ ٹھہریے غور کیجئے کہیں ایسا تو نہیں کہ قرآن وحدیث میں سود کی حرمت کے احکامات اُنکی بصارت سے ٹکرائے ہی نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 275 ، 276 کا ترجمہ پڑھ لیں ۔
جو لوگ سود کھاتے ہیں، ان کا حال اس شخص سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو۔ اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں تجارت بھی تو سود ہی جیسی چیز ہے۔ حالانکہ اللہ تعالٰی نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام، لہذا جس شخص کو اسکے رب کی طرف سے نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لئے سود خوری سے باز آ جائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سوکھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے ، وہ جہنمی ہے ، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔
غور کیا اس کلام الٰہی پر آپ نے؟ سود خور کے لئے سیدھی سیدھی جہنم کی وعید ہے۔ کیا حوصلہ ہے نارِ جہنم کو برداشت کرنے کا ؟ جبکہ موسم گرما میں سورج کی حدت برداشت نہیں ہوتی۔ اب ذرا اس بارے میں فرمان رسالت بھی ملاحظہ کر لیجئے۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے لعنت فرمائی سود لینے اور کھانے والے پر اور سود دینے اور کھلانے والے پر اور اُسکے لکھنے والے پر اور اسکے گواہوں پر اور آپﷺ نے فرمایا (گناہ کی شرکت میں) یہ سب برابر ہیں.* (ابن ماجہ)
مزید فرمایا آپﷺ نے! سود کا ایک درہم جس کو آدمی جان بوجھ کر کھاتا ہے، چھتیس بار زنا سے زیادہ گناہ رکھتا ہے۔(مسنداحمد)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسے گروہ پر ہوا جنکے پیٹ گھروں کی طرح تھے ان میں سانپ بھرے ہوئے تھے جو باہر سے نظر آتے تھے۔ میں نے پوچھا جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا یہ سود خور لوگ ہیں۔
عزیزان من! کیا یہ احکامات سود کی حرمت ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں؟ سمجھنے والے سمجھ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ 1948ء میں حضرت قائداعظم نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سود سے پاک معاشی نظام کے قیام پر زور دیا۔ 1949ء میں قرارداد مقاصد اور تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کے 22 نکات میں سودی معیشت کے خاتمے پر زور دیا گیا۔
سود کے خاتمے کے لئے جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی اور دیگر تنظیموں نے طویل جدوجہد کی۔ ہرعدالتی فورم پر دستک دی۔ پہلی پٹیشن 30 جون 1990 کو شریعت کورٹ میں دائر کی گئی ۔ 14 نومبر 1991 کو اسکا فیصلہ ہوا جس میں اسکے نفاذ کے لئے 30 اپریل 1992 تک کی مہلت دی گئی۔ جس کو عدالت عظمی میں چیلنج کر دیا گیا ۔ اس کا فیصلہ 23 دسمبر 1992 کو آیا اور شریعت کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اسے 30 جون 2000 تک نافذ کرنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن حکومت نے 24 جون 2000 کو پھر فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی درخواست دائر کر دی جس پر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے ربا کی تعریف پیش کرنے کے لئے واپس شرعی عدالت کو بھیج دیا گیا، جہاں اسکی سماعت کو 19 سال کا عرصہ بیت گیا۔
خدا خدا کر کے رواں سال 27 رمضان المبارک کی مقدس رات کو اس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ جس میں اصل رقم سے زائد رقم کی وصولی کو سود قرار دیا گیا اور سود کی سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین کو غیر شرعی قرار دیکر انہیں اسلامی روح کے مطابق بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے پر عوام اور خاص طور پر دینی حلقوں کی جانب سے بھرپور تائید اور خوشی کا اظہار کیا گیا۔ لیکن سیاستدانوں ، معاشی ماہرین، پالیسی سازوں ، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کی جانب سے کوئی گرم جوشی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ اب پھر ان نام نہاد مسلمانوں میں چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کہ کسی طرح اس حکم خداوندی پر عمل در آمد روک دیا جائے۔ میرا دل چاہتا ہے ان سے پوچھوں کیسا ہے آپ لوگوں کا ایمان جو دین کے کچھ احکامات مان لینے پر مجبور کرتا ہے اور بہت سے دوسرے ترک کر دینے کا درس دیتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالی کا حکم تو یہ ہے: اے ایمان والو ! اسلام میں مکمل داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔(سورۃ البقرہ)۔
یہ تو منافقت ہوئی کہ کلمہ اسلام کا پڑھا جائے اور پیروی یہود و نصاریٰ کی ہو۔ وہ کونسا اپنے مذہب کے پیروکار ہیں؟ سود تو ہر شریعت میں حرام ہے۔ میں نے ایک مسیحی بھائی کو یہ کہتے سنا کہ بائبل میں لکھا ہے کہ سود خور اپنے بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔
میرے وطن کے حکمرانو! ملکی معیشت سے سود کو نکال باہر کرو جو معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ نماز و زکوة کا پاکیزہ نظام قائم کرو۔ رحمت خداوندی ہم پر سایہ فگن ہوگی ۔ وہ ہمیں ان غیر مسلموں سے بے نیاز کردے گا۔ قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تاریخ اسلام ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور خلافت میں کوئی زکوة لینے والا نہیں ملتا تھا۔ جبکہ سود کے بارے میں پیارے نبیﷺ کا ارشاد ہے: سود اگرچہ کتنا ہی زیادہ ہو جائے لیکن اس کا آخری انجام قلت اور کمی ہے۔ پھر ہم کیوں دنیا و آخرت میں خسارے کا سودا کریں۔ خدا کے لئے پوری قوم کو رزقِ حرام کھلانے کا گناہ اپنے سر نہ لیں۔ اسکی سزا بھی روز حشر آپ کو ہی بھگتنا ہوگی۔
اس تحریر کو پڑھنے والوں سے میری یہ گزارش ہے کہ اسے پڑھ کر آگے نہ گزر جائیں سود کی حرمت کے بارے میں آیات و احادیث کو ذہن نشین کر لیں اور آگے دوسروں تک پہنچائیں، تاکہ وہ لوگ جو نادانی سے اس لعنت میں گرفتار ہو رہے ہیں اس گناہ سے باز آجائیں۔