ملک لانگ مارچ کا متحمل نہیں

عمران خان نے آج کے لانگ مارچ کو خونی لانگ مارچ کہا ہے اور بقول عمران خان کہ تاریخ کے سب سے بڑے اس لانگ مارچ کا مقصد پاکستانی عوام کو امریکہ کی غلامی سے آزادی دلانہ ہے ان سے یہ توپوچھا جا سکتا ہے کہ اس وقت اپنی وزارت عظمیٰ میں انہوں نے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیوںنہیں کیا تب تو پر امن احتجاج کرنے والے تحریک لبیک کے کارکنوں پر سیدھی گو لیاںچلادی گئیں۔یہ جس حقیقی آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور جس غلامی سے چھٹکارے کےلئے انہوں نے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے نشستوں سے استعفیٰ دیئے گئے اور خیبر پختونخواہ اسمبلی میں اپنی صوبائی حکومت قائم رہنے دی گئی کیا وہ پاکستان کا حصہ نہیں َ؟ وہاں کی غلامی انہیں قبول ہے ۔ بے شک تحریک انصاف نے ڈنڈے، سوٹوں ، لاٹھیوں سے لیس کار کنوں کو اپنے ہی ملک اس کی سا لمیت کے خلاف اکسا کر صحیح معنوں میں ملک دشمنوں کا کام آسان کر دیا ہے جو وہ اربوں ڈالر کا اسلحے کے انبار لگا کر اور لاکھوں کی تعداد میں فوج کھڑی کرکے نہ کر سکے ۔پی ٹی آئی نے وہ کام دنوں میں کردیا۔

ادھرملکی معیشت سسکیاں لے رہی ہے ،ایک عام پاکستانی بنیادی ضروریات اشیاءکےلئے ترس رہا ہے ، دوائیاں غریبوں کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں ، روزگار کی سہولیات نا پید ہیں ،آٹا چینی اور گھی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ، پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ ، ڈالر کی اونچی اڑان اور بجلی کی بڑھتی قیمت نے زندگی اجیرن کر دی ہے، اوپر سے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط سے مزید کڑا وقت سر پر ہے ۔ تجارتی خسارہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے ۔ایسے نازک حالت میں باہر سے کوئی بھی سرمایہ کاری کرنے کے لئے آمادہ دکھائی نہیں دے رہاجبکہ سری لنکا جیسے سنگین معاشی بحران سے ہم صرف چند قدم کے فاصلے پر ہیں ۔طرفہ تماشا ہے کہ ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والے اپنے دور میںسودی معیشت کا خاتمہ نہ کر سکے بلکہ آئی ایم ایف کے کہنے پر مہنگائی میں ہوشربا اضافہ کر کے عوام کی زندگیوں کو مشکل سے مشکل تر بنا دیا ۔جولائی 2017 میں جب نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تھا تو اس وقت ایک امریکی ڈالر ایک سو چار روپے کا تھا اور آج پانچ برس میں تقریبا نوے روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

بےشک عمران خان بہترین سوشل میڈیا مینجمنٹ ہیں ، کئی نامور صحافی ان کے بیانیے کو مضبوط کرتے ہوئے نظر آئے اور وہ عوام میں یہ تاثر پختہ کرنے میں کامیاب رہے کہ ان کے خلاف بیرونی سازش ہو ئی ہے ، اگر بیرونی سازش ہے تو اپنے حواریوں کے ساتھ امریکی سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کیا جاتا ۔اس کے برعکس ملک کو تختہ ءمشق بنا ڈالا ۔ وفاقی دارلحکومت میں لانگ مارچ کو جہاد قرار دیکر اسلامی شعائر کا تمسخر اڑایا جا رہا ہے ۔ عمران خان جانبازوں کی تضحیک جمہوریت نہیں بلکہ ان سر فروشوں کی لازوال قربانیوں کی توہین ہے ۔ ہماری پاک افواج کے خلاف مذموم سازش ہے ۔ بحیثیت قومی لیڈر آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ا س ملک کی بنیادوں میں بیس لاکھ شہیدوں کا خون ہے وہ رائیگاں نہیں جا سکتا ۔ یہ دھرتی اقبال کے خواب کی تعبیر اور قائد اعظم کے امنگوں کا ترجمان اسلامی جمہوریہ پاکستان جو امت مسلمہ کے ماتھے کا جھومر ہے ۔ آج کشمیریوں کو ہماری ضرورت ہے ۔ حریت لیڈر یٰسین ملک کو سزا سنائی جا رہی ہے ایسے میں دنیا کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھانے کے بجائے اس کو من مانیاں کرنے ، انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے کا بھر پور موقع فراہم کیا جا رہا ہے یہ کیسی حب الوطنی ہے ؟ ۔عمران خان ایک بار پھر کشمیریوں کے خون کا سودا کرنے جا رہے ہیں ۔5اگست 2019 ءکو سابق وزیر اعظم نے ٹرمپ اور مودی سے کشمیر کو بیچ دیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا ہی خاتمہ دیا گیا۔

یوٹرن کے ماسٹر عمران خان پر امن احتجاج کی کال دیتے دیتے خونی مارچ اور گالی گلوچ سے گولیوں پر اتر آئے ہیں جس کا شاخسانہ عوام میں دیکھ چکی ہے جب ایک کانسٹیبل کو پی ٹی آئی پر کھلی فائرنگ ہے جس کے نتیجے میں پولیس اہلکار شہید ہو گیا ۔عمران خان کے مطابق جب تک نئے انتخابات نہیں کروائے جائیں گے یہ دھرنا پھر جاری رہے گا ۔تیسری کوئی بات انہیں قبول نہیں ، فوج سے کہتا ہوں نیوٹرل رہے۔عمران خان کے ایسے غیر سنجیدہ بیانات دنیا بھر میں پاکستان کی سبکی کا باعث بنیں ۔اگر سیاسی قائدین اپنے حامیوں کو ایک دوسر ے کےخلاف بھڑکا کر ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلے گے تو اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہو گا بلکہ ملک و قوم کا ہی نقصان ہو گا ۔ اس وقت ملک جب سیاسی و اقتصادی عدم استحکام سے گزر رہا ہے تو اس کا متوازن اور مستقل حل فراہم کرنا بھی سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے ۔ بلاشبہ جمہوری نظام جہاں پر امن جلسوں ، جلوس اور مظاہروں کی اجازت دیتا ہے مگر تشدد،بد امنی ، افراتفری اور قانون شکنی کی اجازت نہیں دیتا ۔ دھمکیاں ، دھونس اور دارلحکومت پرحملے کا اعلان آزادی اظہا ر رائے نہیں ،ملک سے بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔

دوسری جانب حکومت ریاست کی رٹ پر ہر صورت عمل درآمد بنانے کا عہد کررکھا ہے کیونکہ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ 2014ءمیں یہ شخص اعلان کرکے آیا تھا کہ میں پر امن رہو ں گا لیکن کیا ہوا پوری قوم نے دیکھا کہ وہ یہاں اپنے جتھوں کے ساتھ 126دن تک بیٹھے رہے پارلیمنٹ پر حملہ کیا اور حکومتی چینل پی ٹی وی پر حملہ کیا سول نافرمانی کھلے عام کال دی اور یہاں تک کہ بجلی کے بلوں کو نذر آتش کیا گیا پولیس والوں کے سر پھاڑے اور اب یہ دھرنا یا لانگ مارچ کن مقاصد کے حصول کے لیے دیا جارہا ہے ؟یہ لانگ مارچ اس لیے دیا جارہا ہے کہ حکومت کو کام کرنے سے روکا جائے انتشار اور فساد پیدا ہو اور ملک سول وار کی طرف دھکیل دیا جائے ۔عمران خان نے جس طرح مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز شریف پر جس طرح رکیک جملے کسے ایک ایک بڑے سیاسی قائد کے شایان شان نہیں ۔