راز

راز کہنا، سننا، بتانا، کتنا دلچسپ معاملہ ہے اسکے پیچھے کتنا تجسس پنہاں ہے۔ ہر کوئی راز دار بننا چاہتا ہے لیکن اسکا پاس رکھنا،حفاظت کرنا ہی اصل ذمہ داری ہے، کچھ لوگ اسے ایک شغل کی طرح لیتے ہیں اور ہر جگہ نشر کرتے پھرتے ہیں، جس سے نہ صرف جس کے متعلق راز ہے اسکی عزت نیلام کر رہے ہوتے ہیں بلکہ اپنے کردار کو بھی مشکوک کر رہے ہوتے ہیں

کتنا اذیت ناک لمحہ ہوتا ہے جب اپنا کوئی راز محفل کی زینت بنا ہو اور ہر ایک کی زبان سے سن رہے ہو اس وقت محسوس ہوتا ہے کہ زمین پھٹے اور آپ اس میں سما جائیں، لوگوں کی زبانوں میں ہماری کمزوریوں کی تشہیر ہو رہی ہوتی ہے، ہم چپ سادھے اپنے اس لمحے کا ماتم کر رہے ہوتے ہیں جب ہم نے کسی کو رازدار بنایا تھا، لوگ تو آہستہ أہستہ بھول جاتے ہیں لیکن بس راز افشا کرنے والے کا کردار مشکوک ہو جاتا ہے، ساری زندگی کا ایک ہی سبق مل جاتا ہے کہ آئندہ کسی پر اعتبار نہیں کرنا۔

راز دار بنانا اصل میں دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا ذریعہ ہے، یہ بوجھ اللہ تعالی کی ذات کے سواء کوئی نہیں اٹھاسکتا اگر اٹھا بھی لیا تو کسی جذباتی موقع پر افشا ہونے کا خطرہ سولی کی طرح

لٹکا رہے گا لحاظہ اللہ رب العزت سے بڑھ کر کوئی رازداں نہیں ، جو سن کر ملامت، طعنہ نہیں دیتا اور نہ افشاء ہونے کا ڈر رہتا ہے بلکہ بندہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے اور یہ بہتریں رازداں ہر وقت میسر ہے،

راز کو اچھالنا ایک دلچسپ مشغلہ بن چکا ہے نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی طور پر بھی یہ کام انٹرٹینمنٹ کے نام پر کیا جاتا ہے، آج کل سوشل میڈیا بھی لوگوں کی نجی زندگی کے راز اچھالنے کا کام بہت احسن طریقے سے کر رہا ہے اور سب سے ذیادہ لائک انہی چیزوں میں مل رہے ہیں، جتنی مشہور شخصیت ہوگی اسکے نجی زندگی کی کہانیاں مختلف سرخیوں، ویڈیوز کے ذریعے پھیلاکر ذیادہ سے ذیادہ کمایا جاتا ہے گویا راز پھیلانا بھی کمائی کا ذریعہ بن گیا صرف پرموشن کی خاطر ایک خبر کو مختلف کئی طریقوں سے پیش کرکے ذیادہ سے ذیادہ لائکس کما کر بزنس کیا جا رہا ہے۔

اس سارے کاموں کے نتائج بہت بھیانک سامنے آتے ہیں معاشرے، خاندان میں فساد پیدا ہوتا ہے اور یہ معاشرہ آپس کے جھگڑوں اور رنجشوں کدورتوں کی وجہ سے کسی مقام پر بھی ترقی یافتہ نہیں بن سکتا کیونکہ یہ اندرونی طور پر ہی ذہنی انتشار کا شکار ہوچکا ہوتا ہے ہمیشہ پر امن معاشرہ ہی ترقی کرتا ہے اس لئے قران میں سورہ حجرات میں ایک پرامن معاشرے کی بہترین صورت گری کی ہے کہ جو آپس میں لڑنے والوں کے درمیان صلح کرواتے ہیں،ایک دوسرے کو طعنے نہیں دیتے، تجسس یا ٹوہ نہیں لیتے، کسی کی غیبت، چغلی، بہتان نہیں لگاتے، بدگمانی نہیں کرتے، برے القابات سے نہیں پکارتے، بلاتصدیق بات آگے نہیں پہنچاتے۔

یہی اخلاقی قدریں ہیں جن کا خیال رکھتے ہوئے ہی ہم بہترین معاشرہ بناسکتے ہیں انکا خیال رکھتے ہو؎ئے ہی آپس کی محبتوں کو پروان چڑھاسکتے ہیں۔