سری لنکا کا بدترین معاشی بحران،ہمیں سبق سیکھنا ہو گا

سر لنکا میں عوام کے شدید دباو اور مسلسل احتجاج کے پیش نظر وزارت عظمیٰ سے مہندرا راج پکسے کے استعفیٰ کے بعد ان کے حامیوں کے سڑک پر اْتر آنے کی وجہ سے ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے نیز کرفیو میں توسیع کے باوجود سیکوریٹی فورسیز صورتحال پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ شروع ہونے والے تشدد سے متعدد افراد ہلاک کئی زخمی ہیں۔

سری لنکن وزیراعظم کے استعفیٰ کے باوجود عوام مطمئن نہیں ہیں اور وہ صدر گوٹابایا راج پکسے کے استعفے پر مصر ہیں۔ یاد رہے کہ مہندرا راج پکسے کے خلاف عوام کی شدید برہمی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے گھر کے باہر مظاہرین پر ان کے حامیوں نے پر تشدد حملہ کیا جس میں کئی افراد زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد حکومت مخالف مظاہرہ کے کلیدی مرکزگّلے فیس گارڈن پر بھی حکومت حامی پہنچ گئے اور انہوں نے وہاں بھی مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ نتیجے میں مظاہرین بے قابو ہوگئے جن کی تعداد حکومت حامیوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ انہوں نے نہ صرف حکومت حامیوں کو سڑکوں پر دوڑا دوڑا کر پیٹابلکہ سیکورٹی فورسیز کو بھی خاطر میں نہیں لائے۔

سری لنکا غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے حکومت مسائل کے بھنور میں پھنس گئی ہے۔دو کروڑ 20 لاکھ کی آبادی والے ملک کو تیزی سے کم ہو رہے زرمبادلہ کے دخائز اور قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے عوام کے لیے اشیائے ضروریہ درآمد کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ان وجوہات کی وجہ کئی ہفتوں تک حکومت کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے جو حال ہی میں پرتشدد ہو گئے، جس کے بعد وزیراعظم کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔عوام کے زیادہ تر غصے کا محور صدر گوتابایا راجاپکشے اور ان کے بھائی اور سابق وزیراعظم مہندا راجاپکسے ہیں، جن پرملک کو معاشی بحران میں مبتلا کرنے کا الزام ہے۔

مظاہروں کا آغاز کیسے ہوا؟ کئی مہینوں سے سری لنکن شہری اشیائے ضروریہ خریدنے کے لیے قطاروں میں لگ رہے تھے کیونکہ زرمبادلہ کے بحران کی وجہ سے درآمدی خوراک، ادویات اور فیول کی قلت ہو گئی تھی۔ تیل کی کمی کی وجہ سے عوام کو لوڈ شیڈنگ کا بھی سامنا تھا۔کورونا وبا اور روس یوکرین تنازع نے بھی حالات کو بدتر بنا دیا لیکن ممکنہ معاشی بحران کے حوالے سے انتباہ بہت پہلے سے کیا جا رہا تھا۔ 2019 ء میں صدر گوتابایا راجاپکشے ایسٹر پر چرچ اور ہوٹلوں میں ہونے والے خود کش دھماکوں کے بعد اقتدار میں ائے تھے۔ان دھماکوں میں 290 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور سیاحت کی صنعت کو بہت نقصان پہنچا تھا، جو کہ زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔گوتابایا راجاپکشے نے سری لنکا کو معاشی بحران سے نکالنے اور محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔حکومت کو اپنے محصولات میں اضافہ کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ بڑے انفراسٹکچر منصوبوں کی وجہ سے غیر ملکی قرضوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔ کچھ قرضوں کے لیے چین نے مالی اعانت فراہم کی تھی، لیکن اپنی صدارت کے چند ہی دنوں میں راجاپکشے نے سری لنکا کی تاریخ میں ٹیکسوں میں سب سے بڑی چھوٹ دے دی۔اس اقدام پر عالمی منڈی کی جانب سے فوراً سزا دی گئی۔ قرض دہندگان نے سری لنکا کی درجہ بندی کم کر دی اور اسے مزید رقم ادھار لینے سے روک دیا۔ اس کے فوراً بعد کورونا وبا نے ملک کی معیشت کو متاثر کیا اور قرضوں میں اضافے کے ساتھ ہی سیاحت کا شعبہ پھر بند ہو گیا۔پھر گزشتہ اپریل میں راجاپکشے نے مناسب منصوبہ بندی کے بغیر نامیاتی کاشتکاری کو فروغ دینے کے لیے کیمیائی کھادوں کی درآمد پر اچانک پابندی کا اعلان کر دیا۔اس اعلان نے کسانوں کو حیران اور چاول کی فصلوں کو تباہ کر دیا۔ جس کے بعد اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔روس اور یوکرین کی جنگ نے بھی عالمی مارکیٹ میں اجناس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا، جس سے درآمد اور بہت مشکل ہو گئی۔اس کے علاوہ غیرملکی زرمبادلہ کے دخائز میں تیزی سے کمی کی وجہ سے حکومت نے غیرملکی قرضوں کی ادائیگی بھی روک لی۔

اس وقت سری لنکا اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ حکومت کے پاس تیل کی درآمد کے لیے غیر ملکی کرنسی کی قلت ہے اور تیل کی کمی کے باعث بجلی کی بھی شدید کمی کا سامنا ہے۔ شہری پٹرول اور ایندھن کے لیے گھنٹوں قطار میں لگنے پر مجبور ہیں۔حکومت کے خزانے میں ریزرو میں کچھ نہیں ہے۔ یہ نہ تو تیل درآمد کرپا رہا ہے اور نہ ہی دیگر اشیائے ضروریات۔ اس وجہ سے ملک میں بد ترین افراتفری کی صورتحال ہے۔ مہنگائی ہے کہ دہرے ہندسوں میں اڑان بھرتی عام آدمی کی زندگی محال کرتی جا رہی ہے، بجلی کا تعطل ایسا ہے کہ طبیبوں کو اسپتالوں میں ٹارچ جلا کر مریضوں کا علاج کرنا پڑ رہا ہے، وہ بھی ایسے حالات میں کہ بہت سی ادویات جو درآمد ہوتی تھیں، اب دستیاب نہیں۔ پٹرول پمپوں اور گیس اسٹیشنز کے آگے لمبی لمبی قطاریں ہیں۔طلبا کے امتحانات ملتوی ہو چکے ہیں اور ہر طرف سراسیمگی سی کیفیت ہے۔ چاول جو سری لنکا کے لوگوں کے کھانے کا بنیادی جزو ہیں، ترانوے فیصد تک مہنگے ہو گئے ہیں۔ سری لنکا کے روپے کی قدر میں شدید ترین کمی ہوچکی ہے اور ملک میں ایک ڈالر تین سو سری لنکن روپے سے اوپر جا چکا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق حکومتی بدانتظامی، ناقابلِ برداشت قرضے اور ٹیکسوں میں کٹوتیوں نے بحران کو مزید سنگین کردیا ہے۔سری لنکا کے بحران کی جہاں معاشی و اقتصادی پالیسیاں ہیں ، وہاں سری لنکا کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے حکمرانوں کی من چاہی و من مانی غیر موثر پالیسیاں ہیں۔

سری لنکا پر اس وقت ایک ہی خاندان راجا پکسا کی حکومت ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے راجا پکسے خاندان کے لوگ سری لنکا کی حکومت میں کسی نہ کسی طرح شامل ہیں۔ اس خاندان کی دو بڑی پالیسیوں کو موجودہ بحران سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ تاہم سری لنکا کے معاملے میں ماہرین معیشت متفق ہیں کہ اسے فوری طور پر اپنے معاشی انفرا اسٹرکچر میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی، اسے اپنی برآمدات بڑھانا ہوں گی اور بیرونی قرضوں پر سے انحصار کم سے کم کرنا ہوگا۔یہ حالات بالکل ریاست پاکستان کی طرح ہیں لہذاہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ہم بھی وہی غلطیاں تو نہیں کررہے جو غلطیاں سری لنکا سے سرزد ہوئیں؟ ۔