پاکستانی سیاست اور مختلف طبقات

کسی بھی آزاد ریاست میں لفظ سیاست نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے ملک میں جو سیاست کے میدان میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ اقتدار حاصل کر لیتا ہے لیکن یہ اقتدار مسلمان کیلئے محض خدا کی ایک امانت ہے جسے وہ رب کی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے نہ کہ اپنی ذاتی خواہش کی بنا پر۔ ایماندار حاکم کی توجہ صرف عوام کی فلاح پر مرکوز رہتی ہے۔ ذاتی مفادات تو اس مقابلے میں پیچھے کہیں دور رہ جاتے ہیں۔

یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام سے تھوڑا عرصہ بعد سے ہی اقتدار ایک مخصوص طبقہ کے ہاتھ میں رہا۔اس طرح سے آج تک یہ تصور عام ہے کہ سیاست اور طاقت کا تعلق محض مالدار طبقے سے ہے۔باقی عوام ان کے احکامات کو بجا لانے کی ذمہ دار ہے اور سیاست میں شمولیت کا ان کا کوئی حق نہیں۔

عالمی سطح پر کسی بھی معاشرے کو تین طبقات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ، درمیانہ اور نچلا۔ میرے اس آرٹیکل کا مقصد ان تینوں طبقات کی سیاست سے متعلق فہم اور آگاہی کو زیر بحث لانا ہے۔ تاکہ ہم اپنے لوگوں کی سیاسی تفہیم کے بارے میں جان سکیں۔

میں نے اس سلسلے میں مختلف طبقات سے وابسطہ سو سے زائد افراد کے انٹرویو بھی کیے۔ ان سے کچھ سوالنامے حل کروائے اور برقی میڈیا سے مدد بھی حاصل کی۔ ان تمام کوششوں کے بعد نتائج واضح طور پر ہمارے سامنے آ گئے جن کا ذکر میں اپنے اس آرٹیکل میں کرنا چاہتی ہوں۔

میری رپورٹ کے مطابق اعلیٰ طبقے کے افراد اس حوالے سے نہایت پُر اعتماد دکھائی دئیے۔ انہوں نے ووٹنگ میں شرکت کو اپنا حق قرار دیا، ان میں سے اکثریت کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی اسی پیشے سے معلوم ہوا، ان کے نزدیک سیاست کوئی مشکل سائنس نہیں اور بیشتر نے شمولیت کا ارادہ ظاہر کیا۔ ٹیکس کی ادائیگی اور اس کی اہمیت پر ان لوگوں نے لمبے لمبے تبصرے پیش کئےمگر ہماری  تحقیق ان کے الفاظ سے برعکس ثابت ہوئی وہ ٹیکس ادائیگی کی اہمیت پر بات تو کرتے ہیں لیکن عملاً اجتناب کرتے ہیں۔ انہوں نے موجودہ قانون اور قانون سازی پر بھی اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے بیرونی امداد پر زور دیا اور اس سلسلے میں امریکہ کی حمایت بھی کی، ان میں سے اکثریت ملکی معاشی بحران سے بے خبر اور بے پرواہ ثابت ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پاکستان کی بجائے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی، ان کی اکثریت نے پاکستان کو رہائش گاہ کے لیے آئیڈیل قرار نہ دیا اور اپنے ساتھ موجودسیکیورٹی فورس کو بھی ظاہر کیا۔ پاکستان کی موجودہ بڑی انڈسٹریز جو کہ پاکستان کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت رکھتیں ہیں انہیں لوگوں کی جاگیروں میں شامل دکھائی دیتیں ہیں۔

اس کے بعد زیریں طبقہ کی بات کی جائے تو ہماری تحقیق کے مطابق ان کی اکثریت میں سیاست کے متعلق کچھ فہم ہی نہ دکھائی دیا۔ اس موضوع کے متعلق ان کے لہجے میں مسلسل ناگواری نظر آئی۔ بعض لوگوں نے تو اس بابت بات کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ انہوں نے سیاست اور اس سے متعلق کسی بھی شعبے میں شرکت کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست بڑے لوگوں کا کھیل ہے اور ہم محض اس کھیل کے تماشائی ہیں۔ ہمارے باپ دادا بھی دن رات کی مزدوری کے بعد روٹی،کپڑا اور مکان کا رونا روتے اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور ہم بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔ ووٹنگ، ٹیکس، قانون، قانون سازی، معیشت، معاشی بحران اور حکمرانوں کے مفادات کے متعلق ایک ہی جواب تھا کہ غریب عوام کا ان سب سے کوئی لینا دینا نہیں۔ چند سال ایک گروہ ملک کا استحصال کرتے اور چند سال بعد دوسرا گروہ ملک کو لوٹنے کے لیے آ جاتا ہے۔ اس گردش میں ملکی اور عوامی مفاد سے کسی کو کوئی سرو کار نہیں اور یہ سالوں سے روایت بن چکی ہے۔ غریب کی حفاظت کے متعلق سوال پہ ان کے چہروں پہ طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی کہ گویا یہ کسی اور ہی دنیا کا سوال پوچھ لیا ہو۔

متوسط طبقے کی آراء کچھ ملی جلی سی معلوم ہوئی۔ روزگار اور معیشت کی فکر ان میں سے اکثریت میں نمایاں تھی، اپنے گھرانوں کی بہتر دیکھ بھال کیلئے سبھی مشکلات سے دو چار تھے جس کی بنیادی وجہ مہنگائی معلوم ہوئی۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے سیاست میں شرکت کا ارادہ محض خود کو پیش آنے والی مشکلات کے سبب ظاہر کیا۔ کچھ نے عوام کی فلاح و بہبود کا بھی عزم ظاہر کیا۔ ملکی قانون سازی سے سب ہی ناخوش معلوم ہوئے۔ پاکستانی معاشرے کو غیر محفوظ قرار دیا گیا مگر اس کی بنیادی وجہ بیروزگاری کو قرار دیا اور حکومت سے اس کے حل کی اپیل بھی کی۔ ان میں سے اکثریت ووٹ اور اس کی اہمیت سے واقف معلوم ہوئی۔ ٹیکس کی ادائیگی سے تو سب متفق دکھائی دیے مگر اس کے بدلے میں ملنے والی سہولیات سے سب کو شکایت رہی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں عوام کو ٹیکس کی ادائگی کے عوض ملنے والی سہولیات کو بھی اُجاگر کیا۔

میں نے اپنی تحریر میں ان تمام طبقات کے مسائل ،نظریات اور سیاست سے تعلق کو اپنی تحقیق کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے آگے بڑھ کر اپنے ملک و قوم اور سیاست کی ترقی اور کامیابی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور محنت و لگن، ایمانداری کا راستہ اپنا کر پاکستان کو دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لا کھڑا کرنا چا ہیئے۔

خدا کرے میرے ارضِ پاک پہ اترے،

وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو۔