پُرامن معاشرے کی ضروریات

کوئی بھی معاشرہ امن کے بغیر پھل پھول نہیں سکتا،جس طرح ہم اپنی باقی تمام بنیادی ضروریات کو مکمل کرنے میں لگے رہتے ہیں ،اس طرح اگرامن کی بحالی کی کوشش کی جائے تو بہت سے مسائل کی نشاندہی ہوگی اوران کا حل نکل آئے گا۔معاشرے میں امن نہ ہونے کی اہم وجہ عدم برادشت کے بڑھتے ہوئے رویئے ہیں،جس دن ہم یہ سمجھ جائیں کہ دوسرے شخص کی سوچ غلط نہیں بلکہ ہم سے مختلف ہے اس دن سارے جھگڑے اور اختلافات ختم ہوجائیں گے۔ہم ایک دوسرے کی اظہاررائے کا احترام نہیں کرتے بلکہ جب تک بات ہمارے مطلب کی نہ ہو ہم اسے سننے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔

سوچ الگ ہونا غلط نہیں جب مختلف سوچ رکھنے والے افراد مل کر بیٹھتے ہیں تو کافی نئی چیزیں سیکھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن اس کے بجائے ہم بحث و مباحثہ میں پڑ جاتے ہیں، بحث کا کوئی فائدہ نہیں، بحث سے گفتگو کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے،اپنے لہجے اور انداز میں اپنائیت رکھنی چاہیے تاکہ اگلا شخص اپنی بات کہتے ہوئے نہ ہچکچائے اور ایسے الفاظ کا چناوکیا جائے جو سب کی سمجھ میں آجائے اپنی سوچ کا اظہار اوررائے دینے کا حق سب کو حاصل ہے،ہمارے معاشرے کے حالات کو مدنظررکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہوگیا ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے سوا دوسرے کے امن کے بارے میں بھی سوچ رکھتا ہوگا۔انسانیت کو بچانے کی آج جس قدر ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی،جس کیلئے سب کو مل اپنا پنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

اس وقت سب سے بڑی سوشل میڈیا نیوز ویب سائٹس ہیں، میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں کوئی بھی شخص اپنی اظہارِ رائے کو منٹوں میں دنیا بھر میں پہنچا سکتا ہے تو جہاں آجکل ان ویب سائٹس کو شغل اور دوسرےفضول کاموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے وہاں اگر ہم ان کو امن پھیلانے کا ذریعہ بنائیں تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ،میرے نزدیک تمام مسائل کی بنیاد اجتماعی سوچ سے جڑی ہوئی ہے، سوچ ہی دراصل ارادے کا روپ دھارتی ہے اور پھر ارادے عمل میں ڈھلتے ہیں، جیسی سوچ ویسے ارادے. ایک بہت ہی خوبصورت حدیث ہے کہ، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے،جس سے کسی کی دل آزاری ہو ایسے الفاظ کا استعمال نہ کریں تو امن قائم ہونے میں دیر نہ لگے۔

ہم سب کی سوچ الجھی ہوئی ہے، فکر میں یکسوئی موجود نہیں ہے،جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کی سوچ کو سمجھنے اور مسائل کا حل ڈھونڈنے کے بجائے نت نئے مسائل جنم دے رہے ہوتے ہیں،یہی نہیں بلکہ معاشرے کی بنیاد عدل و انصاف سے ہو ۔عدل قائم و دائم رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے،چاہے وہ کوئی اعلیٰ ڈگری والا ہو یا کوئی ان پڑھ۔ انصاف سب کے لئے ایک جیسا ہونا ضروری ہے کسی کو بھی انصاف سے محروم نہ کیا جائے،انسانی فطرت میں تنوع موجود ہے, ایک دوسرے کی نفسیات کو سمجھیں،میڈیا کا کردار کچھ یوں ہو سکتا ہے کہ ہمارے پاس میڈیا میں اگر کوئی خبر آئے تو جب تک اس کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال نہ کی جائے اسے نشر نہ کریں،میڈیا کو اس معاملے پر ذمہ دار ہونا چاہیئے اور ایک صحافی کے قلم کو سچ لکھتے ہوئے لرزنا نہیں چاہیئے۔نفرت پر مبنی مواد کی روک تھام کرنی چاہیئے،ایک دوسرے کی رائے کو ترجیح دیں جب تک ایک دوسرے کو نہیں سمجھیں گے مسائل حل نہیں ہوں گے اور مسائل حل نہیں ہوں گے تو امن بھی بحال نہیں ہوگااور جب تک امن بحال نہیں ہوگا معاشرہ خوشحال نہیں بن سکتا۔

حصہ
mm
طلحہ الرحمان ڈیجیٹل میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی ہے،جو ایک مقامی نیوز ویب سائیٹ سے وابستہ ہیں، حال ہی میں ایک غیر سرکاری ادارے وائس میڈیا نیٹ ورک کے صحافت برائے امن کے عنوان پر تربیتی ورکشاپ میں حصہ بھی لیا