دامن میں ماں کے صرف وفاؤں کے پھول ہیں

ہر سال مئی کی دوسرے اتوار کو ماں کا عالمی دن بڑے ذوق شوق سے منایا جاتا ہے ،سال کے 365دنوں میں سے صرف ایک دن ماں کے لیے منانا، ممتا جیسی ہستی اور اس حسین رشتے کے لیے ناکافی ہے۔ ماں وہ ہستی ہے کہ جس کی محبت میں ریاکاری، بناوٹ اور کوئی دکھاوا نہیں۔ ماں جو اپنی اولاد کی رازداں ہوتی ہے ان کے دلوں کے بھید جانتی ہے، ان کی خوبیوں کو اُجاگر کرتی ہے، ان کی خامیوں، ان کی کوتاہیوں، کمیوں، کجیوں کی پردہ پوشی کرتی ہے، محض اس لئے کہ اولاد کی دل آزاری نہ ہو۔ جو اولاد کی خوشی میں خوش، ان کے غم میں ان کی دل جوئی کرتی ہے۔ گرنے لگتا ہے تو تھام لیتی ہے، اولاد کی کامیابی پر خوشی سے نہال اور ناکامی پر دل گرفتہ ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو خالق کائنات ہے، وہ سب کے ساتھ انصاف کرتا ہے۔

خالق دو جہاں کے بعد ماں ہی وہ واحد ہستی ہے جو لائق، نالائق، صالح، بد اعمال، اپنے سارے جگر گوشوں کے ساتھ یکساں پیار کرتی ہے۔ وہ اپنی اولاد سے پیار اس کی ڈگری، منصب، اہلیت کی بنیاد پر نہیں، اس کا میرٹ صرف اور صرف اس کی کوکھ سے جنم لینے والا بچہ ہے۔ ہاں کبھی کبھار کسی ایک بچے کو اپنی ہتھیلی کا چھالہ بنا لیتی ہے۔ اس کو نہیں جو سب سے زیادہ ذہین، فطین یا خوبروہو، بلکہ اس کو جو کمزور ہو، زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ چکا ہو۔ یہ وصف صرف اور صرف ماں کے رشتے میں ہے اور کسی میں نہیں۔ ماں جو سرد ترین راتوں میں سب سے آخر میں سوتی ہے، محض اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ اس کے بچے پرسکون نیند سو چکے یا نہیں۔ ماں جو ٹھٹھرتی صبح میں سب سے پہلے، نیند پوری کئے بغیر جاگ اٹھتی ہے تاکہ اولاد کو منہ ہاتھ دھونے کیلئے، نہانے کیلئے گرم پانی مل سکے۔ ان کو استری یونیفارم اور چمکتے ہوئے پالش شدہ جوتے مل سکیں۔ وہ اسکول جانے سے پہلے مقدور بھر ہر بچے کی جیب میں جیب خرچ کے چند روپے ڈال سکے۔ ایسا نہیں تو ان کو لنچ کے وقفے میں کچھ کھانے کو ساتھ دے سکے۔ وہ اس لئے بھی صبح سب سے پہلے بیدار ہوتی ہے کہ دروازے پر کھڑے ہو کر اسکول کیلئے رخصت ہوتے بچوں کی پیشانی چوم کر ان کو الوداع کر سکے۔

عالمی دن کے موقع پر کسی نے لکھا کہ ماں کے احسان کا بدلہ کوئی نہیں چکا سکتا۔ اس بندہ خدا کو کیا معلوم کہ ماں کسی پر احسان نہیں کرتی۔ ماں تو قربانی دیتی ہے، ایثار کرتی ہے، احسان کا کیا ہے، اس کا بدلہ بڑا احسان کر کے اتارا جا سکتا ہے۔ مہربانی کا حساب، اس سے بھی بڑی مہربانی کر کے چکایا جا سکتا ہے۔ ایثار اور قربانی کا کوئی بدلہ نہیں، اس کا کوئی صلہ نہیں، ماں کی مشقتوں سے پر زندگی کے ایک لمحے کا بھی کوئی معاوضہ نہیں دے سکتا، سال میں ایک دفعہ خصوصی دن منا کر، ایس ایم ایس کر کے، وش کارڈ بھجوا کر، ٹی وی چینل پر خصوصی پیکیج چلا کر یا کسی اخبار میں خصوصی ضمیمہ چھپوا کر تو بالکل ہی نہیں۔ کیونکہ ماں جیسا کوئی نہیں، ایسا رشتہ کوئی نہیں۔

یہ ماں ہے جو بچوں کے رخصت ہونے کے بعد ان کی بکھری جوتیاں، ادھر ادھر پڑے کپڑے، زمین پر گری چادریں، سلوٹوں سے بھرے بستروں کو درست کرتی ہے۔ کمرہ صاف کرتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اس کے چہرے پر ناگواری کی شکن تک نہیں ہوتی۔ بلکہ خوشی، وارفتگی اور محبت ہوتی ہے۔ یہ ماں ہے جو چلچلاتی دھوپ میں کھڑے ہو کر اپنے بچوں کا انتظار کرتی ہے۔ ان کو اپنے ہاتھوں سے نوالہ کھلاتی ہے۔ یہ صرف اور صرف ماں ہے جو سب سے آخر میں کھانا کھاتی ہے تاکہ اس کے بچے پیٹ بھر کر کھا سکیں۔ وہ محض اس لئے بچا کھچا کھاتی ہے کہ کہیں بچوں کو ان کی غربت اور کم مائیگی کا احساس نہ ہو۔ وہ محض اس لئے کم کھا کر، کبھی بھوکے پیٹ سو جاتی ہے کہ کہیں اولاد بھوکی نہ رہ جائے۔ یہ صرف ماں ہے جو بچے کی پہلی آواز، پہلی پکار پر لبیک کہتی ہے۔ دنیا میں ایسی کوئی ہستی نہیں۔ باپ، بہن، بھائی سمیت دنیا کا کوئی رشتہ بچوں کی بہترین پرورش کا کام احساس زمہ داری کے بغیر کر ہی نہیں سکتا۔ لیکن ماں تو محبت ہے، گداز ہے ، نرم ہے، ریشم ہے، لطافت ہے، مٹھاس ہے۔ اس کو تو سب گوارا ہے اولاد کا ہر ناز پیارا ہے کیونکہ وہ ماں ہے۔

یہ ماں ہے جس کے لئے اس کی اولاد ہمیشہ بچہ ہی رہتی ہے۔ چاہے اس کے عمر رفتہ کے ساتھ بال سفید کیوں نہ ہو چکے ہوں۔ یہ ماں ہی ہے جو اپنے بچوں کے بچپن کے کھلونے تک ساری زندگی سنبھال کر رکھتی ہے۔ اس کی ایک ایک شرارت ہر ایک حرکت کو، گزرے ہر دن کو ضروری آموختہ کی طرح دل کی کتاب میں محفوظ رکھتی ہے۔ یہ ماں ہے جس کو بچے کا بولا گیا پہلا لفظ، رینگنے، اپنے قدموں پر چلنے کا پہلا دن ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ بچے کے اسکول جانے کا پہلا دن ہمیشہ اس کی آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔ بچے کے ہاتھ سے لکھا پہلا حرف، اسکول کی پہلی کتاب، کاپی اور پہلا رزلٹ ہمیشہ سنبھال کر رکھتی ہے۔ بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اس کی پیدائش کے دن سے ہی اس کی رخصتی کیلئے پیسہ پس انداز کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ایک ایک جوڑا بنا کر جہیز تیار کرتی ہے۔ ایسی کڑی تپسیا اور کوئی نہیں کر سکتا۔ یہ ماں ہے جو گھر کے خرچ سے ( جو اکثر حالتوں میں بہت محدود اور قلیل ہوتا ہے )میں سے خاوند کی نظر بچا کر پیسہ پیسہ الگ رکھتی جاتی ہے۔ پھر عین اس دن جب شوہر کی جیب میں بچے کی فیس، داخلہ بھجوانے کیلئے پیسے نہیں ہوتے، کوئی ضروری کتاب خریدنے کی سکت نہیں ہوتی۔ ماں آگے بڑھتی ہے کسی تکیہ کے غلاف میں، کسی دوپٹہ کے کونے میں محفوظ کئے ہوئے پیسے نکال کر ہاتھ پر رکھ دیتی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑے چاؤ اور شوق سے بنوائی کوئی معمولی بالی، ہاتھ کی چوڑی نکال کر بچے کی خواہش پر قربان کر دیتی ہے۔ ایسے کرتے ہوئے وہ کسی کریڈٹ کی طلب گار ہوتی ہے نہ ستائش کا مطالبہ کرتی ہے۔ بستر مرگ تک اولاد کے لئے تڑپنے، بے چین ، بیقرار و بے کل رہنے والی اس ہستی کے لئے ، ماں کے لئے صرف ایک دن کیوں؟ دن کے 24 گھنٹے، ہفتے کے سات روز، سال کے 365 دن، سب اس کے نام، کیونکہ بقول شاعر

دامن میں ماں کے صرف وفاؤں کے پھول ہیں

ہم سارے اپنی ماں کے قدموں کی دھول ہیں