روزہ اور دُعا کی قبولیت

کئی دفعہ مشاہدہ کیا ہے کہ قلب و ذہن پر اترتی بے ساختہ دعائیں معجزوں کی طرح قبول ہوتی ہیں۔ بظاہر ناممکن لیکن اللہ کے جناب میں شرف قبولیت حاصل کرنے والی۔ انسان حیران ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بظاہر ناممکن دکھائی دیتی دعاؤں کی قبولیت کے اسباب کیسے مہیا فرما دیے ہیں اور کس طرح ہماری دعائیں قبول فرمائی ہیں! بلاشبہ دعا عبادت کا مغز ہے اور اللہ تعالیٰ کو دعا کے لیے اٹھنے والے ہاتھ بہت پسند ہیں۔ اپنی خطاؤں اور گناہوں پر نادم ہوتے ہوئے دعا میں توبہ واستغفار کرنا اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا قبولیت دعا کے لیے اہم ترین ہوتا ہے۔

پورا ماہ رمضان قبولیت دعا کے خاص مواقع میں سے ہے۔ اس لیے اس میں دعاؤں کا خوب اہتمام ہونا چاہیے۔  روزے دار کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ مانگتے رہنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں روزے کی آیات ذکر کرنے کے بعد فرمایا :

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِىۡ عَنِّىۡ فَاِنِّىۡ قَرِيۡبٌؕ اُجِيۡبُ دَعۡوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلۡيَسۡتَجِيۡبُوۡا لِىۡ وَلۡيُؤۡمِنُوۡا بِىۡ لَعَلَّهُمۡ يَرۡشُدُوۡنَ. (البقرة : 186)

ترجمہ:”اور (اے نبی!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دیں کہ) میں تو قریب ہوں۔ میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکاریں۔ تو انہیں چاہیے کہ وہ میرے احکام مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت حاصل کریں۔”

علامہ ابنِ عاشور رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ:  اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روزے دار کی دعا قبول کی جائے گی، اور ماہِ رمضان کی سبھی دعائیں قبول ہونے کی امید ہے، اور رمضان میں ہر دن کے اختتام پر (افطاری کے وقت) دعا کرنا مشروع ہے۔(التحرير والتنوير : 179/2)

اسی طرح  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :  وقال ربکم ادعونی استجب لکم. (المؤمن: 60)

ترجمہ: مجھ سے دُعا مانگو، میں قبول کروں گا۔

ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ  میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس کے پاس ہوں۔ یعنی وہ جیسا گمان مجھ سے رکھتا ہے، میں اُس سے ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں، اور میں اُس کے ساتھ ہوں جب وہ مجھ سے دُعا کرے۔ (صحیح بخاری و مسلم)

اگرچہ سحری و افطاری کے اوقات میں روزے دار کی دعا کی قبولیت کے اسباب بڑھ جاتے ہیں مگر روزے دار کی دعا سارا دن ہی قبول کی جاتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کافرمان ہے کہ :ثلاث دعوات لا ترد: دعوة الوالد، ودعوة الصائم، ودعوة المسافر۔ (السنن الكبير للبيهقي : 6619، صحيح)

ترجمہ: تین دعائیں رد نہیں کی جاتیں: باپ کی دعا، روزے دار کی دعا اور مسافر کی دعا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :

لكل مؤمن دعوة مستجابة عند إفطاره، إما أن يعجل في دنياه، أو يدخر في آخرته!  ترجمہ: ہر مومن کی دعا افطار کے وقت ضرور قبول ہوتی ہے ؛ یا دنیا میں قبول ہو جاتی ہے یا پھر آخرت کے لیے ذخیرہ کر دی جاتی ہے!

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہما اپنے لیے یہ دعا کیا کرتے تھے : يا واسع المغفرة اغفر لي!

ترجمہ: اے وسیع مغفرت والے! مجھے بخش دے۔( شعب الإيمان : 3620، سنده حسن)

امام نووی رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ: روزے دار کو چاہیے کہ سارا دن دنیا و آخرت کی بھلائیاں مانگتا رہے ۔ کیونکہ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ روزے دار کے لیے سارا دن ہی دعا کرنا مستحب ہے. (المجموع شرح  : 422/6)

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین۔ (البقرہ: 222) ترجمہ:  “یقیناً اللہ تعالیٰ بہت توبہ کرنے والوں اور بہت پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

توبہ کون کرتا ہے؟

وہ جو گناہ کرتا ہے۔

بار بار توبہ کون کرتا ہے؟

جو بار بار گناہ کرتا ہے۔

اور گناہ گار کون نہیں ہوتا؟

انبیائے کرام تک سے خطائیں ہو جاتی تھیں اور وہ سب سے بڑھ کر “غافر الذنب و قابل التوب” ہے۔ سب سے زیادہ معاف کرنے اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔  اور پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ توبہ کرنے والوں اور بہت زیادہ پاک و صاف رہنے والوں  سے محبت رکھتا ہے۔ ۔ کہاں ہم جیسے گناہ گار کہ اپنے دل میں ﷲ کی محبت پانے کے لیے بےتاب رہتے ہیں اور کہاں یہ مقام ومرتبہ کہ ﷲ تعالیٰ خود ہم سے محبت کرے! بلاشبہ یہ بہت توبہ واستغفار کرنے والوں کو نصیب ہوتا ہے ۔

اللھم اجعلنی من التوابین و اجعلنی من المتطہرین،  ترجمہ: اے اللہ! مجھے بہت توبہ کرنے والوں اور بہت پاک رہنے والوں میں سے بنا دیں۔”

رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ:  انسان کی تین باتوں سے خالی نہیں ہوتی

1. اس کا گناہ بخشا جاتا ہے۔ یا

2. دُنیا میں اسے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ یا

3. اس کے لیے آخرت میں بھلائی جمع کی جاتی ہے کہ جب بندہ اپنی اُن دُعاؤں کا اجر و ثواب دیکھے گا جو دُنیا میں قبول نہیں ہوئی تھیں تو وہ تمنا کرے گا کہ “کاش! دُنیا میں میری کوئی دُعا قبول نہ ہوتی اور سب اخرت کے لیے جمع رہتیں۔”

خواتین کو بھی دعا مانگنے اور توبہ واستغفار کرنے میں سستی اور کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ خصوصاً سحری اور افطاری کے مصروف اوقات میں وقت نکال کر ضرور اپنے لیے کم از کم پانچ دس منٹ اللہ تعالی کے سامنے دعاؤں کے لیے ہاتھ اٹھا کر اور جھولی پھیلا کر توبہ واستغفار کرنا، اور اپنی ساری ضروریات، حاجات اور مرادیں مانگنی چاہیے۔

ذاتی دعاؤں اور دیگر عزیز و اقارب کے لیے دعائیں کرنے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز پاکستان اور امت مسلمہ کے مظلوم مسلمانوں کو بھی اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھنا چاہیے۔ اور امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق اور اس کی نشاۃ ثانیہ کے لیے بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔