ہے جرم ضعیفی کی سزا‎‎

دروازے پر دستک ہوئی تو میں نے چونک کر سامنے کی جانب دیکھا! دفعتا ایک با حجاب خاتون اندر کی جانب آتی دکھائی دیں، میں نے بھی تیزی سے قدم آگے کی جانب بڑھائے کہ چہرہ اجنبی تھا۔

السلام علیکم!  اندر آنے والی خاتون نے سلام کیا۔ وعلیکم السلام! میں نے جوابا کہا اور استفسارانہ نگاہیں خاتون کے چہرے پر ڈال دیں۔باجی ہیں؟ خاتون نے سمجھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا۔نہیں باجی تو نہیں ہیں،کوئ کام ہے تو بتادیں میرا جواب سن کر ان خوش شکل مگر پریشان سی خاتون کا چہرہ اتر گیا۔اچھا ان کا نمبر دے دیں، خاتون نے عرض کیاباجی منع کرتی ہیں کہ اجنبی خواتین کو نمبر نہیں دیا کرو۔ہم کوئ مرد تو نہیں ہیں جو کسی کو بھی نمبر دے دیں۔ میرا لہجہ معذرت خواہانہ ہوا۔میں بہت پریشان ہوں، انھوں نے بلایا تھا مدد کے لیے کہا تھا،بار بار آنا مشکل ہوتا ہے فون پر وقت لے کر آجاوں گی اگلی بار،خاتون نے بے چارگی سے کہا تو میرا دل بھی پریشان ہونے لگا اور ڈانواں ڈول ہونے لگا۔

میں نے ہمدردی سے کہا اچھا بتائیں کیا مسئلہ ہے؟میرے شوہر جیل میں ہیں،پانچ بچے ہیں،عمر قید کی سزا ہوگئی ہے انھیں  خاتون کے جواب پر مجھے گویا دھچکا سا لگا۔ کیوں ہیں جیل میں؟ ہمت کر کے پوچھا۔ایکسڈنٹ ہوگیا تھا کسی کا اور فورا ہی انتقال ہوگیا،اب وہ لوگ معاف نہیں کر رہے،جب تک معاف نہیں کریں گے میرے شوہر باہر نہیں آسکتےاور جتنا پیسہ وہ خون بہا میں مانگ رہے ہیں ہمارے پاس ہے نہیں،خاتون کے لہجے میں شدید اداسی پنہاں تھی۔

آپ نے ان سے دوبارہ بات کی؟ میں نے آسرا دینے والے انداز میں کہا۔ کئی بار۔ اب وہ دھمکی دیتے ہیں کہ اگر اب ہمارے پاس آئے تو پیسے مزید بڑھادیں گے۔ میں کچھ دیر خاتون کو تاسف کے عالم میں دیکھتی رہی۔ جوان خوبصورت خاتون۔پانچ بچے۔ چھوٹے بچے جنھیں اکیلے چھوڑ کر جاب کے لیے جانا ممکن نہیں۔رمضان شروع ہورہا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو مبارک بادیں پیش کر رہے تھے۔میں ان خاتون کو تسلی اور دعائیں دیتے سوچ رہی تھی کہ زندگی ہر ایک کے لیے اتنی مختلف کیوں ہے؟میں ضرور باجی تک آپ کی تفصیل پہنچادوں گی اور مدد بھی ان شاء اللہ لازمی ہوجائے گی۔ میں نے تسلی دی تو خاتون اپنا دل مزید ہلکا کرنے لگیں۔

آگے کی کہانی یہ تھی کہ ان کے شوہر ڈرائیونگ کرتے وقت نشے کی حالت میں تھے اور اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے شدید شرمندہ ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ جن کا جانی نقصان ہوا وہ غلط نہیں قصور تو میرا ہی ہے کہ نہ میں نشے میں ہوتا اور نہ یہ حادثہ ہوتا۔”کہتے کہتے وہ رو پڑیں کہ میں ان پانچ بچوں کا کیا کروں؟ان کا حال نہیں دیکھا جاتا کہ قیامت کے روز مجھ سے سوال نہ کریں کہ باپ جیل چلا گیا تھا تو ماں نے بھی دیکھ بھال نہیں کی۔

میری آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔دل ایسی بے بسی اور بے کسی پر تڑپ اٹھا تھا۔اور اندازہ لگانے سے قاصر تھا کہ اس وقت اس ساری صورتحال میں اصل قصور وار کون ہے؟وہ جن کا فرد دنیا سے چلا گیا اور وہ اپنے غم میں جھلس رہے ہیں۔معاف کرنے کی تاب نہیں پاتے۔وہ جس کو آلودہ معاشرہ نے شرابی بنادیا۔ہمارا ٹریفک سسٹم ! ہماری سڑکیں جہاں کوئی بھی نشے میں دھت گاڑیاں بھگا سکتا ہے۔کوئ قانون نہیں؟قصور وار کون ہے؟ نہیں پتا۔مگر سزا ایک بے چاری مظلوم سادہ ان پڑھ خاتون اور پانچ معصوم بچے کاٹ رہے ہیں۔عید قریب ہے،سوچ رہی ہوں کہ جب سب عید کی خوشیاں منائیں گے تو وہ اپنی ویران آنکھوں اور سونی کلائیوں کے ساتھ اپنے بچوں کو تسلی دیا کرے گی کہ اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتی ہے؟  کیوں کہ!  ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات