روزہ اورصحت

دنیا کے بہت سارے مذاہب اور ثقافتوں میں روزہ رکھنے کی روایت دور قدیم سے چلی آرہی ہیں ، مسلمان کوجہاں روزہ رکھنے سے روحانی طور پراللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی وہیں جسمانی صحت کو بیشمارفوائد حاصل ہوتے ہیں، روزہ رکھنے سے جسم مشکلات اورکم وسائل میں بہترین زندگی گزارنے کااہل ہوجاتاہے جس کا اقرار جدید سائنس بھی اپنے تجربات اور مشاہدے کی روشنی میں کرچکی ہے۔

میڈیکل سائنس کے مطابق روزے کے انسانی جسمانی صحت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ روزہ نہ صرف ذیابیطس sugar، بلند فشار خون pressure bloodاور انسانی وزن کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوتاہے بلکہ دماغی افعال کو بہتر طریقے سے سر انجام دینے کی صلاحیت کوطاقتور بناتاہے، انسانی جسم سحری کھانے کے بعد آٹھ گھنٹے تک معمول کی حالت میں رہتا ہے۔ ان آٹھ گھنٹوں کے دوران معدے میں پڑی خوراک مکمل طور پر ہضم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد جسم جگر اور پٹھوں میں ذخیرہ شدہ گلوکوز کواستعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جب یہ ذخیرہ بھی ختم ہو جائے تو پھر جسم چربی کو پگھلا کر توانائی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جسم میں ذخیرہ شدہ چربی کے بطور خوراک استعمال سے وزن میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے، کولیسٹرول کی مقدار میں کمی واقع ہونے سے ذیابیطس کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جسم میں شوگر کم ہونے سے کمزوری اور تھکاوٹ کا احساس شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سردرد، سر چکرانا، متلی اور سانس سے بدبو جیسی شکایات بھی ہو سکتی ہیں۔

افطار کے بعد پانی زیادہ مقدار میں پینا چاہیے کیوں کہ روزے کی حالت میں پسینہ آنے سے جسم میں پانی کی کمی یعنی ڈی ہائیڈریشن واقع ہو سکتی ہے، افطارکے وقت کھانوں میں توانائی بخش اشیاءشامل ہونی چاہیے۔ عام زندگی میں ہم روزانہ ضرورت سے زیادہ کیلوریز استعمال کرتے ہیں، جس کے سبب جسم ان غذاﺅں کودرست اندازمیں استعمال نہیں کرپاتاجس کی وجہ سے جسم بیشمار مسائل کاشکار ہونے لگتا ہے جن میں سرفہرست بدہضمی، اضافی چربی ، موٹاپا، جگرکے جملہ امراض وغیرہ جو مزید بہت سارے امراض کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ انسانی جسم بھی دیگرمخلوقات کی طرح ایک خودکارنظام کاحامل ہے کسی بھی قسم کی بیماری کامقابلہ کرنے کی صلاحیت اس وقت کام نہیں کرتی جب جسم ضرورت سے زیادہ غذاﺅں کوہضم کرنے کی کشکمش سے دوچارہوجاتاہے۔

سال میں ایک ماہ روزے رکھنے سے جسم کواپنی مرمت کرنے کاموقع مل جاتاہے جس کے نتیجے میں جسمانی صحت بڑی حدتک بحال ہوجاتی ہے ۔ جدیدسائنس اس بات کااقرار کررہی ہے کہ روزہ دار کے جسم کے زیادہ ترمسائل حل ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میںجسم بھرپور قوت سے چلنے لگتا ہے یہاں تک کہ انسان کی یادداشت اور ارتکاز کی قوت بہتر ہو جاتی ہے۔ ایک مسلمان کیلئے تواپنے رب رحمان کاحکم ہی کافی ہے ۔ بے شک دین سلام بہترین ضابطہ حیات ہے جونہ صرف انسانی کی دنیاوی زندگی کوفعال بناتاہے بلکہ آخرت میں بھی بہترین اجر وثواب کاضامن ہے، سال میں ایک ماہ کے روازے رکھنے سے انسان اپنے مالک وخالق کے قرب کاحقداربھی بن جاتاہے اور دنیاوی زندگی میں بہترین جسمانی صحت بھی حاصل کرلتاہے ،ایک ماہ بھوک و پیاس کی شدت برداشت کرنے سے اپنے اردگردکمزورطبقات کی مشکلات کاادراک کرنا بھی انتہائی آسان ہوجاتاہے۔