فتح مکہ ! فتح عظیم

حیرت سے جسے تکتے ہیں قوموں کے مؤرخ

اے فخرِ جہاں ﷺ! آپ ہیں وہ افضل واکرم

عالم میں کہ تمثیل کوئی جس کی نہیں ہے

ہے آپﷺکی ذاتِ گرامی وہ مکرم

ہجرت کا آٹھواں سال ہے اور رمضان المبارک کا دسواں روزہ۔ حبیبِ خدا دس ہزار جانثاروں کے ساتھ مکہ المکرمہ سے روانہ ہورہے ہیں۔ یہ پہیوں گاڑیوں جہازوں کا دور نہیں بلکہ اونٹوں اور گھوڑوں کا سبک رفتار قافلہ ہے۔ عارضی قیام کیلئے نہ سرائیں ہیں نہ ہی ہوٹل ۔ صحرائے عرب ہے اور تاحدِ نگاہ سیاہ بنجر پہاڑ ہیں ۔

اسلامی لشکر خزاعہ کے چشمے پر پہنچا تو ایک بڑے میدان میں ٹھہر گیا ۔ خیمے لگائے گئے۔ اندھیرا چھا چکا تھا اسلیے سالار اعظم نے حکم دیا کہ ہر قبیلہ الگ الگ آگ جلائیں تاکہ دیکھنے والے پر شوکت اسلام کی دھاک بیٹھ جائے۔ پہرہ دار مقرر کیے گئے ان میں حضرت عباس رض بھی شامل تھے ۔ وہ ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے اپنا فرض ادا کر رہے تھے کہ دو افراد پر نظر پڑی۔ ان میں سے ایک کہہ رہا تھا کہ  ابو سفیان ! بخدا یہ تو خزاعہ کی آگ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کی تیاریاں ہورہی ہیں ( بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا ) ابو سفیان نے کہا” قیامت تک خزاعہ کی یہ شان نہیں ہوسکتی۔ یہ آگ کا جنگل اور آدمیوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر  حضرت عباس رض بول اُٹھے ابو سفیان ! میں عباس بن عبد المطلب ہوں اور یہ محمدﷺبن عبداللہ کی آگ ہے۔

شانِ اسلام کہ دونوں کے دلوں میں ایسا رعب طاری ہوا کہ حضرت عباس رض کے کہنے پر دونوں مسلمان ہوکر دربار نبوت میں حاضر ہوئے اور زبان رسالتﷺ سے مبارکباد وصول کی۔

لشکرِ اسلام کےسپہ سالارکی حکمتِ عملی دیکھیےکہ مکہ قریب آیاتولشکرکوکئی حصوں میں تقسیم کردیااورہرٹولی کاالگ کمانڈربنادیاحکم ہواکہ شہرمیں الگ الگ دروازوں میں داخل ہوں اورجب کوئی پہل نہ کرےاس پرہاتھ نہ اٹھائیں۔ یہ کیسی فتح تھی کہ نہ قتل وغارت نہ لوٹ مار نہ فتح کےشادیانے نہ خوشی کےترانے۔ 20رمضان المبارک کودنیاکاعظیم فاتح مفتوحہ علاقےمیں اس شان سےداخل ہواکہ سرمبارک جھکاہواہےاورزبان پرحمدوشکرباری تعالٰی کےکلمات جاری ہیں یہ مفتوحین کون ہیں؟ وہی اھلِ مکہ جنھوں نے20 سال ان مفتوحین پرظلم وستم کےپہاڑتوڑے طعن وتشنیع کےتیروں سےسینےفگارکۓحتی کہ وطن چھوڑنےپرمجبورکردیا۔

آج وہ ڈرےاورسہمےہوئےکہ رحمتِ عالم ہجوم سےمخاطب ہوئے اورفرمایاجانتےہوآج میں تم سےکیساسلوک کرنےوالاہو؟ جواب میں کہنےلگے۔ آپ شریف بھائی اورشریف بھائی کےبیٹےہیں۔ آپﷺنےفرمایامیں آج وہی کرونگاجومیرےبھائی یوسف نےاپنےبھائیوں کےساتھ کیاتھا،

لاتثریب علیکم الیوم،  آج کےدن تم پرکوئی عتاب نہیں ہےتم سب آزادہو۔ کیاخوب کہاکسی شاعرنے۔

یہ شان صبروحلم کہ اعداءکےحق میں بھی، کوئی عتاب ہے، نہ دعائے عذاب ہے،

کیا فاتحین عالم میں ملتی ہی کوئی ایسی مثال اسلام اور مسلمانوں کو دہشتگرد کہنے والے اگرتعصب کی عینک اتار کر تاریخ اسلام کے اس زریں باب کا مطالعہ کرلیں تو رحمت عالم ﷺ کی رسالت کے گواہ بن جائیں مگر شرط یہ ہے کے مسلمان کا اپنا کردار بھی اپنے پیارے نبی ﷺ کی شخصیت کا أہینہ دار ہو تاریخ گواہ ہے کے قران اولی کے مسلمانوں کےمثالی کردار سے ہی اسلام دنیا کے ہر خطے میں پھیلا دعا ہے کے الله تعالیٰ ہمیں مثالی مسلمان بننے کی تو فیق عطاء فرمائے أمین۔