رب کی بندیاں

رمضان المبارک کا آخری عشرہ آن پہنچا، مساجد آباد ہیں، مردوں کے ساتھ خواتین بھی تراویح پڑھنے آتی ہیں۔ کئی اپنے چھوٹے بچے گود میں اٹھا کے اور کچھ انگلی پکڑ کے لاتی ہیں ۔ رکوع و سجود کرتے وقت کسی کا بچہ رونے لگتا ہے، ماں رب سے وفا نبھا رہی ہے، بچے کے رونے سے پریشان بھی ہوتی ہے۔ ایسے میں رب کو یقیناً پیار آتا ہوگا نا اپنی بندیوں پر۔ گھر کے کام نپٹاتے ہوئے، چولھے کی گرمی اور تپش برداشت کرتے ہوئے، یہ بندیاں عبادت سے غافل نہیں ہوتیں۔ مردوں کو ہفتے میں ایک دن چھٹی کا مل جاتا ہے مگر خواتین کو کبھی کام سے چھٹی نہیں ملتی۔ جس طرح مرد عبادت کرتے ہیں اسی طرح مومنہ خواتین بھی عبادت کی پیاس رکھتی ہیں۔ اسی لئے اجر کا وعدہ مومن مردوں اور مومنات سے ایک جیسا ہی کیا گیا ہے۔ ہمارے نبی مہربان صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

“میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ اسے طویل کردوں لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر میں اپنی نماز مختصر کردیتا ہوں، اس امر کو برا جان کر کہ میں اس کی ماں کے لئے تکلیف کا باعث ہوجاوں”۔صحیح بخاری۔

مسجد میں بعض اوقات نمازی خواتین کے بچے ادھر ادھر چلے جاتے ہیں، ان کی کیفیت کا اندازہ ہمیں ام موسیٰ کے ذکر سے ہوتا ہے جب انھوں نے اپنے بچے کو فرعون سے بچانے کے لئے، اللہ کے حکم پر صندوق میں رکھ کے دریا میں بہا دیا تھا، اپنے نومولودبچے کی جدائی برداشت نہیں ہورہی تھی، اسی کا تذکرہ قرآن پاک میں کیا گیا، اور صبح کے وقت ام_ موسیٰ کا دل بے قرار ہوگیا، بے شک قریب تھا کہ وہ اسے ظاہر کردیتی اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کرتے کہ وہ ہمارے وعدے پر یقین رکھنے والوں میں سے رہے ۔سورہء قصص آیت 10۔ بچوں کی پرورش بڑی کٹھن ہوتی ہے، کئی مرحلے آتے ہیں کہ ماں کا دل ہولتا رہتا ہے، بچہ اسکول سے لیٹ ہو جائے تو نظر گیٹ پہ ہی ہوتی ہے۔ چھوٹے بچوں کو سلاتے ہوئے ماں کتنی ہلکان ہوتی ہے کہ تھکاوٹ سے خود نیند کے جھونکے آرہے ہوتے ہیں۔

~ ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش

میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے !

مگر سعادت مند ہے وہ جس ماں نے اپنا دل اپنے رب سے لگا رکھا ہو ، وہ رب اس کے دل کو مشکل مرحلوں میں بھی مضبوط کرتا رہتا ہے، تھامے رہتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج کل معاشرے میں خواتین کے احترام و تقدیس کا خیال بہت کم رہ گیا ہے۔ سوشل میڈیا پہ سیاسی بحثوں میں ایک دوسرے کی ماں بہن تک کو بخشا نہیں جاتا۔ بہت دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ یہ ساری نوجوان کھیپ جو یقیناً ماؤں کی گودوں میں پروان چڑھی ہے اور بہنوں کی سنگت میں کھیل کود کے بڑی ہوئی ہے، یہ اپنی انا بلند رکھنے کی لڑائی میں عورت کے احترام کی اسلامی تعلیمات اور خاندانی روایات کو کیوں بھول جاتی ہے۔ ہمارے بڑے بزرگ کہا کرتے تھے کہ بیٹی سب کی سانجھی ہوتی ہے، رب کی رحمت ہوتی ہے۔ باپ کے گھر ہوتی ہے تو والدین کی خدمت گزار ہوتی ہے، سسرال میں جاتی ہے تو وہاں جان نچھاور کرتی ہے۔

بقول شاعر

ایک کے گھر کی خدمت کی اور ایک کے دل سے محبت کی

دونوں فرض نبھا کر اس نے ساری عمر عبادت کی !

ہمیں معاشرے میں خواتین کے احترام کا کلچر پروان چڑھانے کا آغاز اپنی ذات سے کرنا ہوگا۔ جیسے ہم اپنی امی اور باجی کی عزت کرتے ہیں، ویسے ہی سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہوکے دوسروں کے بہنوں بیٹیوں اور بیویوں کی عزت کا خیال رکھیں تو یہی شرفِ آدمیت ہے اور ہماری نسلوں کی بقا اس سے وابستہ ہے۔