عمران خان کا اب سراج الحق سے رابطہ کیوں؟

حال ہی میں وزارت عظمیٰ سے اترے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے رابطہ کیا ہے، یہ رابطہ اس وقت ہوا ہے جب عمران خان کو اپنے اتحادیوں، اپنی پارٹی کے رہنمائوں اور اپنے بہت قریبی دوستوں سے دھوکے ملے ہیں اور انہیں کی وجہ آج سے عمران خان کو چلتی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے سراج الحق سے محب وطن قوتوں کے ساتھ ملکر ملک کیخلاف ممکنہ سازش کو ناکام بنانے کے لیے تعاون مانگا ہے جبکہ ابتدائی طور پر امیر جماعت اسلامی کی جانب سے روابط میں تسلسل برقرار رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ یہ بات بھی یہاں قابل زکر ہے کہ 2018ء انتخابات سے قبل پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی خیبرپختونخوا حکومت میں 5 سال اتحادی رہ چکے ہیں۔

بہت سوچنے کے بعد میں نے اس سارے قضیے کے جو نتائج نکالے وہ کچھ اس طرح ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ غالبا خان صاحب مندجہ ذیل ان دو اہم ’’عناصر‘‘ ایم کیو ایم اور جمعیت علما اسلام (ف) سے چھٹکارہ چاہتے ہیں۔

ایم کیوایم ہمیشہ ایک بلیک میلر اور دھوکے باز پارٹی رہی ہے۔ اس مرتبہ کے کھیل نے خان صاحب کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمن سے خان صاحب کو چڑ ہے اور انہوں نے مسلسل نیازی صاحب کو ٹف ٹائم دیے رکھا۔وہ سمجھتے ہیں کہ اتفاق سے دیگر کے مقابلے میں جماعت اسلامی اس معاملے میں بہتر رول پلے کرسکتی ہے اور قابل اعتماد بھی ہے، اب بال جماعت کے کورٹ میں ہے یقینا وہ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے۔ یہ فیصلہ جماعت کے لیے بہت اہم ہوگا۔ سیاست لو اور دو کا نام ہے مگر مقاصد اور حلال سے انحراف نہ ہو تو غور کیا جاسکتا ہے۔

اب جب تحریک انصاف خود چل کر آئی ہے تو ایسے میں جماعت اسلامی اپنے کچھ اہم مطالبات منوا سکتی ہے۔ جیسے الیکشن میں متناسب نمائندگی کا مطالبہ وغیرہ تو گویا اس تجویز پر تدبر کیا جا سکتاہے جبکہ جماعت دھوکے بھی کھا چکی ہے۔ شاید اسی لیے جماعت اسلامی نے تبادلہ خیال کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ جماعت کے فیصلوں میں بعض دفع خود جماعت کے افراد پائوں کی زنجیر بن جاتے ہیں یا (معذرت کے ساتھ) دور اندشی کے بجائے فوری نتائج پر نظر رکھتے ہیں پھر ہر چیز کو ہم چھانتے بھی بہت ہیں۔ یاد دہانی کے طور پر ان کے ساتھ کے پی کے میں اتحاد مناسب رہا۔

میں کم از کم سمجھتاہوں کہ ایم کیو ایم اور پی پی پی ناسور ہیں ان کو غیر موثر کیے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا جبکہ پی پی پی زہر قاتل ہے۔ سب کو اس کے لیے ایک بھی ہونا پڑے تو کر گزرنا چاہیے بلکہ شاید پی ڈی ایم کے پیچھے اصل کھیل ان ہی کا ہوگا تاکہ 18 ویں ترمیم کا تحفظ رہے جس نے ان کو صوبائی خود مختاری اور بے حساب دولت لوٹنے کا کھلا موقع فراہم کیا۔

مندرجہ بالا اندازوں کے مطابق مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے میں تحفظات بھی ہیں۔ میری پیش گوئی یہ بھی ہے کہ مستقبل میں پی ٹی آئی اور جمعیت علما اسلام (ف) ایک ہوسکتے ہیں اور کہنے والوں کے مطابق سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے تو یہ بھی ممکن ہے اور ہر کوئی دوسرے کو استعمال کرتا ہے اور کرنا بھی چاہیے۔ باقی سیاسی ماحول گرم ہے سوچ و بچار ضروری ہے۔ اللہ بہتر کرے۔