القدس منتظر رہنا

چیخ و پکار کی آواز سن کر وہ تیزی سے کمرے سے باہر آیا ۔ باہر کا منظر اس کے لئے ناقابل یقین تھا۔ ایک جانب دو غنڈے اس کی چھوٹی بہن کے ہاتھوں کو بے دردی سے پیچھے باندھ رہے تھے اور دوسری طرف اس کے چھوٹے بھائی کے سر پر ایک غنڈہ بندوق تھامے کھڑا تھا ۔ بھائی کا خوف سے لرزتا وجود، بہن کی چیخیں اور ماں کے آنسو اس سے دیکھے نہیں گئے اور وہ تیزی سے انکی مدد کو آگے بڑھا لیکن پیچھے کھڑے غنڈے نے زوردار لات ماری اور وہ بری طرح زمین پر گر پڑا۔ جسم میں اٹھتی ٹیسوں کو نظر انداز کرتا ہوں وہ دوبارہ کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگا ۔ ایک دم اس کی نظر سامنے پڑی۔ دو غنڈے اس کے سوئے ہوئے والد کو جگا کر گھسیٹتے ہوئے باہر لا رہے تھے۔ باپ کی بے بسی دیکھ کر وہ تیزی سے اٹھا اور ان کی جانب بڑھا مگر اگلے منظر نے اس کے ہوش اڑا دیئے۔ ایک غنڈے نے اس کے والد کو دھکا دیا اور ان کا سر پورے زور سے دیوار سے ٹکرایا اور بہتے خون نے ان کے کپڑوں کو رنگین کر دیا ۔

نا۔ نہیں ! ایک زوردار چیخ کے ساتھ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ پسینے میں شرابور، پھولی ہوئی سانسوں کو قابو میں کرتے ہوئے اس نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی۔ اوہ ! تو یہ خواب تھا ۔ ایک گہری سانس لے کر وہ تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

نیند اس کی آنکھوں سےکوسوں دور تھی۔ وہ بھیانک خواب کسی فلم کی مانند اسکی آنکھوں کے سامنے چل رہا تھا ۔ اچانک منظر تبدیل ہونے لگا۔ منہ پر کپڑا لپیٹے چند نوجوان ہاتھوں میں پتھر لیے ٹینکر کے سامنے کسی چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔ منظر پھر تبدیل ہوتا ہے۔ دو بچیاں اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے فوجیوں کو دھکے دے رہی ہیں۔ پھر منظر بدلتا ہے۔ ایک ماں صبر کا نمونہ بنی اپنے شہید بیٹے کا ماتھا چوم رہی ہے۔ منظر بدلتا ہے۔ ایک سنسناتی گولی بندوق سے نکلتی ہے اور ایک معصوم سے بچے کے سینے میں پیوست ہو جاتی ہے اور وہ معصوم بغیر آواز نکالے ایک دلکش مسکراہٹ لیے اپنے رب سے جا ملتا ہے۔ پھر منظر تبدیل ہوتا ہے۔ مسجد میں نمازی اپنے رب کے حضور کھڑے ہیں۔ یہ وہ مسجد ہے کہ جدھر تمام انبیاء کرام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کی پھر کتنے ہی خوش نصیب ہیں وہ جنہیں یہاں نماز ادا کرنے کا شرف مل رہا ہے۔ یک دم گولیوں کی ترتراہٹ سے فضا گونج اٹھتی ہے ۔ آہ ! ان معصوم بے قصور نمازیوں پر گولیاں چلائی جارہی ہیں ۔ ایسے ہی سیکڑوں مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگے۔ اس نے کرب سے آنکھیں بند کر لیں لیکن وہ جانتا تھا کہ اب آنکھیں بند کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ بھلا حقیقت سے کوئی کس طرح آنکھیں بند کر سکتا ہے۔

میں سویا ہوا تھا۔ شاید بہت گہری نیند ۔ لیکن ایک خواب نے مجھے جگا دیا۔ فلسطین میں تو روز کتنے ہی گھرانے اس تکلیف سے گزرتے ہیں۔ وہاں تو نوجوان اسرائیلیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑتے ہیں، اور میں۔ میں تو ایک خواب سے ۔ صرف ایک خواب سے ڈر گیا۔ کیا وہاں کی ماؤں کو اپنے جگر گوشوں کے جنازے دیکھ کر تکلیف نہیں ہوتی ہوگی، وہاں بچے باپ کو خون میں لت پت دیکھ کر تڑپ نہیں اٹھتے ہوں گے، کیا وہاں بھائیوں کو اپنی بہنوں کی سسکیوں اور ماؤں کے آنسو دیکھ کر درد نہیں ہوتا ہوگا۔ ہاں انہیں درد ہوتا ہے، انہیں بھی تکلیف ہوتی ہے بس ہم ہی ان کی تکلیف محسوس نہیں کر پاتے۔

آج مجھے احساس ہوا ہے اب میں سب کو یہ احساس دلاؤں گا کہ بیت المقدس کی پاک سرزمین کی حفاظت کے لیے اپنی جان کے نذرانے پیش کرنے والے نوجوان ہمارے بھائی ہیں۔ وہاں کی بیٹیاں ہماری بہنیں ہیں۔ وہاں کی خواتین ہماری بھی مائیں ہیں اور ان کی تکلیف ہماری بھی تکلیف ہے۔ اے ارض فلسطین ذرا صبر اور ۔ مسلمانوں کو تیری تکلیف کا احساس ہو گا۔ جلد احساس ہوگا۔ ہم آئیں گے، ضرور تمہاری مدد کو آئیں گے، تم کسی عمرفاروق کسی صلاح الدین ایوبی کے منتظر ہو ناں؟ تو وہ عمر فاروق وہ صلاح الدین ایوبی ہم میں سے ہی ہوگا۔ اے ارضِ فلسطین! منتظر رہنا ہم ضرور آئیں گے ۔ سینے میں توانا عزم لیے وہ بڑبڑا رہا تھا، ہاں ! القدس منتظر رہنا۔ مسلمان بیدار ہورہے ہیں۔