سلیکٹڈ سے امپورٹڈ تک

 

کل تک جو ناقابل قبول تھے آج گنگا نہاکر پوتر ہوگئے ہیں اور ایک مرتبہ پھر ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں دے دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس بات کا فیصلہ کون کرتا ہے کہ کون کس وقت پاک ہوجائے گا اور کسے کس وقت رانداہ درگاہ کردینا ہے۔ شہباز شریف اور ان کی مسلم لیگ ن اگر اتنی ہی پاک صاف تھی تو گزشتہ پانچ سال سے کیونکہ تختہ مشق بنی ہوئی تھی اور اگر اس کے ساتھ کچھ مسائل تھے اور وہ الزامات کی زد میں تھے تو کونسی عدالت نے انہیں اب بری کردیا ہے۔ ہمارے ملک کے سیاستدان ہوں یا میڈیا ان کا قبلہ یکسر تبدیل کیسے ہوجاتا ہے یہ بھی لاکھوں روپے کا ایک سوال ہے۔ مثال کے طور آج کل ملک بھر میں سوشل میڈیا پر ٹرینڈز چلانے والے نوجوانوں کے خلاف کارروائیاں ہورہی ہیں اور یہ ہونی بھی چاہیئیں کیونکہ کسی کو حق کو نہیں پہنچتا کہ وہ پاک فوج اور عوام کے درمیان خلیج پیدا کرے لیکن یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ ملک کے ایک نامور اینکر اور صحافی حامد میر نے اسلام آباد کی سڑکوں پر اسی پاک فوج کو دن کی روشنی میں للکارا تھا اور ایسے الفاظ ادا کیے تھے جو یہاں تحریر بھی نہیں کیے جاسکتے لیکن آج وہی حامد میر صاحب رات کو 8 بجے ایک چینل پر اپنی عدالت لگاتے ہیں اور اپنے فیصلے سنارہے ہوتے ہیں اگر حامد میر کے تمام گناہ معاف ہیں تو پھر ان نوجوانوں کا بھی کوئی قصور نہیں ہے انصاف سب کے ساتھ یکساں ہونا چاہیے۔

ادھر یہ بات زور دے کر کہی جارہی ہے کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے۔ یقیناؐ ایسا ہی ہوگا لیکن جب میں سہیل وڑائچ کو سنتا ہوں جو نیشنل ٹی وی پر بیٹھ کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ عمران خان کو پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج نے مل کر نکالا ہے تو میرے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور مجھے اس وقت بھی تشویش ہوتی ہے کہ جب سلیم صافی صاحب ایک ٹوئٹ کرتے ہیں جس میں ایک حساس ادارے کے سربراہ کے ہاتھوں میں گیند ہوتی ہے اور اس پر کیپشن یہ دیا ہے کہ لاسٹ بال۔ ان واضح اشاروں کے بعد سوالات تو اٹھتے ہیں کہ واقعی نیوٹرل ہیں نیوٹرل ہیں یا دال میں کچھ کالا ہے۔

ہمیں عمران خان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ وہ جس طریقہ کی گورننس کررہے تھے ایک سال بعد ان کو اپنی موت آپ مارجانا تھا لیکن آخر وہ کون لوگ ہیں جس نے اس مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی حکمران کے جانے پر عوام اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پہ نکل آئے ہیں۔ یہ لوگ عمران کی محبت میں باہر نہیں نکلے ہیں بلکہ یہ عمران خان کے بیانیے کی حمایت میں باہر نکلے ہیں۔ انہیں بھی عمران خان سے کوئی خاص التفات نہیں تھا لیکن آپ نے خان کو ہیرو بنادیا ہے۔ ایک ایسا ہیرو جو سپرپاور کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ معاملات چلانے والوں سے اندازے کی غلطی ہوگئی ہے۔ کیا ہی دلچسپ صورتحال ہے کہ پاک فوج کے اعلیٰ حکام کو ان کا نام لے لے کر تنقید کا نشانہ بنانے والے وزیر اعظم ہاٶس میں براجمان ہیں۔ محسن داوڑ اور علی داوڑ جن کے بارے میں ہمیں بتایاگیا تھا کہ ان کو بھارت سے فنڈز ملتے ہیں وہ اب اس نئے غیر فطری اتحاد کا حصہ ہیں اور خبریں تو یہ بھی ہیں کہ علی وزیر یا محسن داوڑ میں سے کوئی ایک وفاقی کابینہ کا حصہ بھی ہوگا۔

عجیب ملک ہے جہاں ایک سزا یافتہ اور مفرور قیدی کو سفارتی پاسپورٹ جاری کیا جارہا ہے۔ ضمانت پہ رہا ایک ملزم وزیر اعظم ہے۔ ایک سزا یافتہ خاتون جو ضمانت پر رہا ہے اس کو وزیر اعظم ہاٶس میں کمرہ الاٹ ہوچکا ہے۔ ڈان لیکس کا مرکزی کردار طارق فاطمی وزیر اعظم صاحب کے اجلاسوں میں شریک ہے۔ وقت کا پہیہ گھوم کر ایک مرتبہ پھر وہیں آگیا ہے لیکن اس مرتبہ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ سب غیری فطری ہے اور یہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا ہے۔ اب یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ عمران خان کی پی ٹی آئی کو فارن فنڈنگ کیس میں کالعدم بھی قرار دیا جاسکتا ہے شاید یہی وہ آخری کیل ہوگی جو اس سسٹم کے تابوت پر ٹھوکنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس کے بعد معاملات کیا رخ اختیار کریں گے اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ سلیکٹڈ تو ہمارے عوام کو قبول تھا کیونکہ سلیکٹرز اپنے تھے لیکن امپورٹڈ کو یہ قوم کبھی قبول نہیں کرے گی۔ ملک کے مفاد میں ضروری ہے کہ فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں دیا جائے اور شفاف الیکش کی طرف قدم بڑھایاجائے وگرنہ یہ تلخی ہمیں انتشار کی طرف بھی لے جاسکتی ہے۔