ٹُوٹا ہوا دل

کئی ہفتوں سے دل بڑا بے چین تھا، غم اور دُکھ سے دل بھرا ہوا تھا، آنکھیں نم رہتی پر آنسو اتنے خودار کے مجال ہے کسی کے سامنے پلکوں سے ٹپک جائیں۔ مانا ہر انسان کو دُکھ ہے تکلیف ہے سب کی زندگیوں میں پریشانیاں ہیں۔ لیکن میرے درد بہت زیادہ ہیں تکلیفیں ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتی نا جانے کونسی آزمائش ہے؟

میری طبیعت میں اتنا احساس کیوں ہے سمجھ نہیں آتا۔ جن لوگوں سے شکایات ہے کُھل کر ان سے شکوہ بھی نہیں کرسکتی۔ کیا میں مایوس ہوگئی ہوں؟ لیکن مایوسی تو کفر ہے، پھر میں کیوں اپنا دل چھوٹا کرتی ہوں؟ کیوں لوگوں سے اُمیدیں لگاتی ہوں؟ جبکہ اُمید تو اسی سے لگانی چاہیۓ جو پوری کر سکتا ہو۔ مگر پھر ان سب باتوں میں ایک بات یہ بھی ہے کہ کہیں میں بھٹک تو نہیں رہی، کہیں میں مخلوق کو منانے کے چکر میں خالق کو تو نہیں بھول بیٹھی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ رازق سے زیادہ رزق سے محبت ہوگئی ہو؟

کہتے ہیں جب کوئی مشین خراب ہوجائے تو اُسے اُسی کی کمپنی میں مرمت کے لیۓ بھیجا جاتا ہے۔ جیسے لوہار کا کام سنار نہیں کرسکتا۔ ایسے ہی انسان کو تخلیق کرنے والی ذات اللہ رب العزت کی ہے۔ تو میں اس تھکے ہوئے جسم اور دُکھی روح کو اللہ کے حوالے کیوں نہیں کرتی؟ جو بہتر طریقے سے مجھے جانتا ہے۔ وہ جو میری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ پھر کیوں میں مایوس ہوتی ہوں مجھے تو خوش ہونا چاہیۓ کہ کوئی ہے جو نہ صرف میری بات سنتا ہے بلکہ راز بھی رکھتا ہے اور بہت جلد مسائل حل بھی کردیتا ہے۔

لیکن کیسے؟ اور کب کروں؟ اپنے اللہ سے ملاقات کیا وہ مجھ گناہ گار کی التجا سنے گا۔ ہاں کیوں نہیں جس طرح ایک مشین کے ساتھ ایک کتابچہ آتا ہے جس میں مشین کے بارے میں ہر وہ بات لکھی ہوتی ہے جس سے اسکا نقصان یا فائدہ ہوتا ہو۔ مشین خراب ہونے کی صورت میں کیا کرنا چاہیۓ یا اس کی کمپنی کا ایڈریس جہاں اسے ٹھیک کیا جاسکے۔

ہاں یاد آیا میرے پاس بھی اللہ کی دی ہوئی قیمتی اور تمام اُمت کے لیۓ آپ ﷺ پر نازل کی گئی کتاب قرآن مجید ہے. میرے آخری نبی ﷺ جو تمام اُمت کے لئے نبی ﷺ بنا کر بھیجے گئے۔ آپ ﷺ کی زندگی میرے لیئے بہترین نمونہ ہے اور قرآن مجید جسے میں سمجھ کر پڑھوں تو وہ مجھ سے بات کرتاہے بلکہ میں جب جس کیفیت میں پڑھوں مجھے اپنی ہی کہانی نظر آتی ہے۔ اگر نیکی کروں تو میرے لیئے خوش خبری۔ اور گناہ کروں تو جہنم کی آگ۔ اتنا ہی نہیں میں اگر گناہ کرنے کے بعد ہمیشہ کے لیۓ توبہ کر لوں تو سبحان الله میرے گناہ بھی معاف وہ کتنا مہربان ہے۔

اللہ کی ذات رحمٰن رحیم ہے بیشک وہ معاف کرنے والا ہے بشرطیکہ کوئی معافی تو مانگے اپنے گناہ پر شرمسار تو ہو۔ بس آج تو اپنے اللہ سے ملاقات کرنی ہے رات کے تیسرے پہر جب پکارا گیا ہے کوئی جو بھلائی مانگے، ہے کوئی جو اپنی بخشش چاہتا ہو۔ میں سجدے میں جھک گئی ہاں میرے اللہ میں ہوں جو بخشش بھی چاہتی ہوں اور بھلائی بھی۔ میں اپنا ہوا دل تیرے سامنے رکھتی ہوں جو دنیا میں بھٹک جانے سے ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔ یہ میری روح جو بیمار ہے یا اللہ یہ آنکھیں کسی کے سامنے نہیں روئیں۔ اور تیرے سامنے یہ آنسو تھم ہی نہیں رہے۔

یااللہ بہت خوشی ہوتی ہے جب میں تجھ سے کہتی ہوں کے تو دلوں کے حال جانتا ہے میرے دل کو پاک کردے اور میری روح کو صحت مند بنا۔ یا اللہ مجھے خوشی ہوتی ہے جب تو خالی نہیں لوٹاتا جب تو یہ نہیں کہتا کے پہلے کیوں نہیں آئے یا اتنے دن مجھے کیوں نہیں پکارا۔ بلکہ تو معاف کرنے والا ہے تیری ذات بڑی عظیم ہے یا اللہ میں زمین بھر کر بھی گناہ لے آؤں تو پھر بھی معاف کردیتا ہے یا الٰہی تو کتنی محبت کرتا ہے مجھ سے۔ اور ایک میں ہوں اس فانی دنیا کے پیچھے بھاگ رہی تھی لوگوں کے بتائےہوئے طریقوں پر خود کو ڈھال رہی تھی۔ میں بھول گئی تھی میری زندگی کامقصد قرآن و سنت ہے تیری بندگی اور آپ ﷺ کی اطاعت ہے۔

یااللہ مجھے اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل کر لے اور میرے دل کو پھیر دے مجھے اپنی رضا میں راضی کر لے اور آنے والی تمام زندگی میں مجھے صرف اپنا محتاج رکھ بے شک تو دعائیں قبول کرنے والا ہے۔ آمین کہ کر چہرے پر ہاتھ پھیرے تو ہاتھ آنسوں سے تر ہوگئے یا اللہ میں اتنا روئی اور مجھے پتہ بھی نہیں چلا فجر کا وقت قریب آگیا اور میرا جسم روئی کی طرح ہلکا پھلکا محسوس ہو رہا تھا دل جیسے اس میں کبھی کوئی دُکھ یا غم تھا ہی نہیں، روح اتنی مضبوط کے ذرا سی بھی تھکن محسوس نہیں ہوئی۔

تھکن محسوس بھی کیوں ہوتی ظاہر سی بات ہے اپنی ذات کو خالق کے سامنے پیش کیا تھا ۔ ریپیئرنگ ہوچکی تھی۔ تسلی مل گئی تھی۔ کہ ہاں میرا رب ہے میرے ساتھ ہے۔ بس ہم سب کو بھی ایسا ہی کرنا جاہیۓ خود کو جاننے کے لیۓ اپنے اللہ کو پہچانیں وہ کیا کہتا ہے ہمارے بارے میں ہم اپنے عمل سے نیکوں میں شمار ہوتے ہیں یا گناہ گاروں میں۔ چاہے کتنی ہی دیر کیوں نہ ہوگئی ہو لوٹ جاؤ اپنے رب کی طرف جس کے قبضہ میں ہم سب کی جان ہے۔