دھرتی ماں

 

چوہدری صاحب نے پاؤں میں کھسا پہنا اورکمرے سے باہر آکے ملازم کو آواز لگائی،”شیدے پتر ، اخبار لے آ ۔  جی چوہدری صاحب، شیدے نے فوری جواب دیا اور اخبار لے کر چوہدری صاحب کی کرسی کے پاس رکھے موڑھے پہ بیٹھ گیا۔

“چل پتر خبریں سنا ” چوہدری صاحب نے کہا۔ شیدا اخبار پڑھنے لگا۔ چوہدری صاحب عمران خان کی حکومت نہیں رہی ۔ کیوں کیا ہوا؟ چوہدری صاحب نے حیرت سے پوچھا۔ اوجی ،کوئی خط آیا ہے امریکہ کا، اس نے کوئی دھمکی لگائی ہے، وہی خان صاحب بتانے والے تھے کہ ان کی حکومت ختم کردی گئی۔ عجیب بات ہے، فون کے زمانے میں خط آیا ہے، کیا لکھا ہے خط میں، جلدی بتا !  چوہدری صاحب نے کہا۔  پتہ نہیں جی، کیا لکھا ہے، امریکہ نے بھیجا ہے تو انگریزی میں ہوگا نا۔ شیدے نے جواب دیا۔

اچھا ! تو اپوزیشن کیا کررہی ہے ؟ چوہدری صاحب شاید دونوں طرف کی بات سننا چاہ رہے تھے۔ اپوزیشن نے کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی، تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، لوگوں کو دو وقت کی روٹی ملنا مشکل ہوگئی ہے، عوام خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں اور جناب وزیراعظم کے بارے میں عدم اعتماد کی ووٹنگ کا حکم سپریم کورٹ نے دیا ہے- اچھا ! سپریم کورٹ کا حکم پڑھ کے سنا،چوہدری صاحب نے کہا۔ چوہدری صاحب، کورٹ تو انگریزی میں حکم دیتی ہے، میں تو بس وہی پڑھ رہا ہوں جو اخبار میں لکھا ہے ” ،شیدے نے کہا۔ اوفوہ، یہ بتا کہ حکومت کیسے ختم ہوئی ہے ؟ چوہدری صاحب تفصیل معلوم کرنا چاہ رہے تھے۔

جناب کافی لوگ پی ٹی آئی سے نکل گئے تھے کیوں کہ ان کو پیپلز پارٹی نے خرید لیا تھا، اب وہی لوگ بلاول کے ساتھ ہیں اور اسمبلی میں وزیراعظم کو عدم اعتماد کا ووٹ ڈال کے نااہل ثابت کردیا ہے ” شیدے نے اخبار کو الٹ پلٹ کے تفصیل بتائی۔ او ہو ، بک گئے ضمیر فروش ! چوہدری صاحب نے افسوس سے کہا۔ میرے چاچے کا پتر ہے، پنجاب اسمبلی میں، ذرا اس کا نمبر ملا۔ چوہدری صاحب نے موبائل شیدے کو پکڑایا۔ اگلے لمحے وہ چچازاد بھائی سے بات کر رہے تھے۔

بھائی جان، اے کی ہوریا ملک وچ؟ اسمبلی دی کارروائی دے وچ تسی شامل او؟  چوہدری صاحب کی فکرمندی قابلِ دید تھی، پھر تھوڑی سی بات سن کے فون بند کردیا ۔ خیریت ہے جناب ؟  شیدے نے پوچھا۔ بھائی نے کہا ہے کہ سارے بل انگریزی زبان میں ہوتے، ہمیں کج سمجھ نہ آندی، کدھر ہاں کرنی، کدھر ناں کرنی چوہدری صاحبنے تاسف سے کہا۔

انگریز یہاں سے چلا گیا پر سارا نظام انگریزی میں کرگیا کہ عوام کی پہنچ ہی نہ ہو کسی ادارے تک ! ،چل پتر اگلی خبر سنا، پر ٹھہر ذرا۔ چوہدری صاحب سوچنے لگے، میری یادداشت کے مطابق عمران خان کے ساتھ جو وزیر ہوتا ہے شہباز گل، وہ تو امریکہ سے آیا ہے، شہزاد اکبر جو عمران کا خاص بندہ ہے وہ بھی، بلکہ شوکت ترین، زلفی بخاری، حفیظ شیخ، رضا باقر یہ سب امریکہ سے آئے ہوئے ہیں، پی ٹی آئی کے اتنے وزیر جو امریکہ سے آئے، کیا یہ خط کا جواب نہ دے سکے امریکہ کو؟ ان کو تو انگریزی فرفر آتی ہے! اور ہاں اپنا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وہ جواب لکھتا امریکہ کے خط کا، چوہدری صاحب نے جوش سے کہا. ہاں جی ،لکھنا چاہیے تھا ، پتہ نہیں ،ان سب نے کیوں نہیں لکھا ؟ شیدے نے بے بسی سے کہا۔

اچھا،ایک بات بتا، اخبار کے مطابق مہنگائی کس نے کی ہے ؟ چوہدری صاحب نے دماغ لڑایا۔ او جی، ایک ادارہ ہے آئی ایم ایف، اخبار میں لکھا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے پاکستان کا اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے حوالے کردیا تھا، یہ ادارہ چونکہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ نہیں ہے تو ہمارا سارا معاشی نظام، پاکستان کے ہاتھ سے نکل کر آئی ایم ایف کے ہاتھ میں چلا گیا اور وہی اتنی مہنگائی کر رہا ہے، یہ ہے ساری خرابی کی جڑ “، شیدے نے تفصیل بیان کی۔ او ہو ،یہ تو بڑی غلطی کی حکومت نے، ملکی خزانہ آئی ایم ایف کو پکڑادیا ! یہ تو خود امریکی غلامی کو قبول کیا نا ! چوہدری صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ پر چوہدری صاحب سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ امریکہ نے دھمکی کیا لگائی ہوگی ؟ ” شیدے نے بھی دماغ لڑایا۔

چوہدری صاحب اٹھ کے کھڑے ہوگئے ، شیدے پتر ! ہمیں انگریزی زبان نہیں آتی، پر بندوق چلانی آتی ہے، میریاں ساریاں بندوقاں صفائی واسطے باہر لے کے آ، بندے تیار کر پتر ، ویکھ لواں گے امریکہ نوں۔ اے جنگ اپنے فوجی بھائیاں نال مل کے لڑنی اے۔ وڈا آیا امریکہ، سب تو وڈا رب ،اک او ہی کافی ، دھرتی ماں دی حفاظت واسطے اسی اک ہو جانا، اسی ساری قوم نے فوج بن جانا ۔ چوہدری صاحب کا عزم و استقلال ان کے چہرے سے عیاں ہوکے شیدے کو بھی تقویت بخش رہا تھا۔