ملکی سالمیت اور سیاسی انا !

انسان اپنے بنائے ہوئے حصار میں اپنے آپ کو قید کرنا شروع کرتا ہے جس کا سبب آس پاس کے حالات بتائے جاتے ہیں، جو انسان کو اس حصار میں دھکیلتے چلے جاتے ہیں، انسان اپنی کمزوری ایمان کی وجہ سے حالات و رونما ہونے والے واقعات کے سامنے آہستہ آہستہ ہتھیار ڈالتا جاتا ہے اور اسکی کوشش جو ابھی شروع ہی نہیں ہوتی دم توڑ دیتی ہے، پھر وہ خود کو حالات کے دوش پر سوار کرلیتا ہے اور اس وقت پر پہنچ جاتا ہے جب اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کے وہ کیا تھا اور کہاں پہنچ چکا ہے۔ کسی بھی انسان کیلئے بدلاءو آسان نہیں ہوتا اور اس انسان کیلئے تو بلکل بھی نہیں جو اپنے روائیتی طرز کی زندگی کو استوار کئے خرامہ خرامہ چلے جا رہا ہو ۔ ایسے میں کوئی اگر بدلاءو کی بات بھی کرتا ہے تو وہ ناقابل برداشت ہوتی ہے ۔

پاکستان میں سیاسی جماعتیں بغیر کسی نظرئیے کے سیاست کرتی ہیں اور اگر کوئی نظریہ کار فرما ہے تو وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پاکستان تقریبا پچاس سال قبل ایک ترقی پذیر ملک تھاجس کے شواہد تاریخ سے ملتے ہیں، ہم ایٹم بم بنا کر دنیا کی آٹھویں ایٹمی طاقت رکھنے والی ریاست بن گئے (الحمدوللہ) لیکن ہم آج تک ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں داخل نہیں ہوسکے ہیں۔ پاکستان کو ہمیشہ سے ہی مقروض رکھنے کی باقاعدہ کوششیں کی جاتی رہی ہیں جسکا فائدہ سیاست دان اٹھاتے رہے۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب ملک کا اقتدار دوخاندانوں کے درمیان واریاں بن کر رہے گیاتقریباً ان خاندانوں کی یہ بندربانٹ تین عشروں پر محیط ہے۔

ذراعت پر انحصار کرنے والے ملک بہت کم معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں لیکن پاکستان جو بنیادی طور پر ذرعی ملک ہے اور اللہ کی نعمتوں سے مالامال ہے پھر کیوں ساری دنیا کے سامنے رسوا ء ہوتا رہا ہے۔ کہیں آپ کی بات کوئی اہمیت نہیں دی گئی الٹا منع کیا جاتا کہ یہ نا بولو اور یہ بولوآسان لفظوں میں ہم ڈکٹیشن (املا) لیتے رہے اور کہتے اور کرتے رہے لیکن ذاتی اثاثے بڑھتے رہے ذاتی کاروبار بھی ترقی کرتے رہے ملک جو ترقی پذیر ہوا کرتا تھا پستیوں میں دھکیلنے میں عالمی سازش کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتے رہے۔ بدقسمتی سے نجی مفادات کی خاطر کبھی بھی یہ بین الاقوامی سازشیں ظاہر نہیں کی جاتی تھیں ۔ پاکستان وہ ملک ہے کہ جس نے دوسرے ملکوں کی جنگیں ناصرف اپنے بازءوں سے لڑیں بلکہ انگنت بازو کٹوائے بھی ہیں ۔

ہمارے ملک پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں سیاسی تاریخ اور بھی مختصر ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس سیاسی مختصر تاریخ میں شاذ ونادر کارہائے نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کوئی کارنامہ انجام پایا بھی ہوتا ہے تو تبدیلی حکومت کے بعد اس کارنامے کی ایسی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں کہ ملک تو ملک ساری دنیا میں جگ ہنسائی کا سبب بن کر رہ جاتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ اس کارنامے کو عملی جامہ پہنانے میں بدعنوانیوں کی فہرست کا عام ہونا ہوتا رہا ہے۔ کہنے والوں نے ان بدعنوانیوں کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ اگر کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہُ :230: کا کہنا تھا کہ میری اُجرت اتنی ہونی چاہئے جتنی کے ایک مزدور کی ہوتی ہے، اگر میرا گھر نہیں چلے گا تو مزدور کی اجرت بڑھادی جائے گی۔ تاریخ میں ایسے بادشاہ بھی گزرے ہیں کہ جن کا نجی باورچی خانہ انکی محنت سے حاصل ہونے والی اُجرت سے چلتے تھے یعنی شاہی خزانے پر بوجھ نہیں تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے مفادات ملک کی بقاء و سالمیت سے جڑے ہوئے ہوتے تھے یہ لوگ ریاست کی بقاء کو اپنی بقاء سمجھتے تھے انکے نزدیک شخصیت سے کہیں زیادہ اہم وہ نظریہ تھا کہ جس کی بقاء میں سب کی بقاء تھی۔

ایک بار پھر سیاسی بازیگروں نے پاکستانی سیاست کی حرمت والی جگہ کو ضمیر فروشی کا بازار بنا لیا ہے جہاں وفاداریوں کے مول لگ رہے ہیں، ملکی مفادات کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ افسوس اس بات کا شدت سے ہے کہ ہمیشہ سے پاکستان کی داخلی صورتحال کا فائدہ اٹھانے والے پھر گِدھوں کی طرح منڈلاتے پھر رہے ہیں۔ انہیں پاکستان کی دنیا میں ہونے والی پذیرائی سے خوف آرہا ہے وہ خوفزدہ ہیں کہ پاکستان اس جدید دنیا میں کہیں امتیازی حیثیت نا حاصل کرلے اور انکے مفادات جن کے لئے وہ برسوں سے تگ و دو کر رہے ہیں ان پر پانی پھر جائے۔ ہمارے ملک کے سارے سیاست دان سوائے حکومت کے ایک جگہ جمع ہوگئے یا کرادیئے گئے ہیں کیوں کہ یہ وہی لوگ ہیں کہ جن کی مدد سے ماضی میں اپنے عزائم کو با احسن طریقے سے انجام دلواتے رہے ہیں ۔

آج کی سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ سماجی ابلاغ کا دور ہے، آپ چاہتے ہوئے بھی کسی سے کوئی بات چھپا ہی نہیں سکتے، عوام سارے معاملے کا بھرپور جائزہ لے رہے ہیں یہ وہ عوام ہے جس نے گزشتہ تین برس اس لئے پیٹ پر پھتر باندھے رکھے کے حالات سازگار ہوجائینگے انکی آنے والی نسلیں قرضوں سے آزاد ہوجائینگی اب یہ ثمرات آنا شروع ہونے والے ہیں کہ حزب اختلاف کو کسی ایسے نے جس نے وزیرِ اعظم پاکستان کو دھمکی آمیز خط لکھا ہے، یکجا کیا اور ایک بار پھر اپنے مکروہ عزائم کیلئے کو تشکیل دینے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ لکھنے والے شائد یہ بھول رہے ہیں کہ وہ دنیا کی ایک ایسی طاقتور مملکت کو دھمکی دے رہے ہیں جسکی عسکری قیادت سے لے کر ایک سپاہی تک اپنے اندرونی اور بیرونی دشموں سے نبردآزما ہونے کا وسیع تجربہ رکھتی ہے ۔

پاکستان نے اپنی مختصر سی تاریخ میں بڑے اہم اور سنگین موڑ دیکھے ہیں، سقوط ڈھاکا ہو یا پھر دہشت گردی کی بدترین وارداتیں جن میں آرمی پبلک اسکول کا سانحہ بھی شامل ہے، یہاں ایک ایک کا نام لکھنا مناسب نہیں ہے، پاکستان نے سب کچھ برداشت کیا اور اللہ کی رحمت اور مدد سے چلتا ہی رہا ہے۔ واقعاتاً آج پاکستان تاریخ کے اہم ترین موڑ پر کھڑا ہوا ہے، یہی وہ موڑ ہے کہ جہاں پاکستان کسی نئے نظام کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلے انتخابات میں عوام ان لوگوں کو یاد رکھے گی یا ماضی کی طرح بھول جائے گی کہ جنہوں نے سیاسی مصلحتوں کی خاطر ملک کی عزت و وقار کو داؤ پر لگایا ہے، لیکن لگتا نہیں بھول پائے گی کیونکہ سماجی ابلاغ اپنا کردار خوب نبھانے والا ہے۔ گرد اڑا کر ماحول کو آلودہ کیا گیا ہے لیکن یہ ماحول زیادہ دیر آلودہ نہیں رہ سکے گا ۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔