شتر بے مہار سوشل میڈیا

مفتی محمد نعیم (مرحوم) کے اکاؤنٹ میں 05ارب 34 کروڑ 14 لاکھ 27 ہزار 147 روپیہ، یہ تفصیلات اس وقت سامنے آئیں جب ان کے سفر آخرت کے بعد ان کے فرزندان میں جائیداد کے جھگڑے نے شدت اختیار کی اور معاملہ چاردیواری سے نکل کر عدالتوں تک جا پہنچا اور عدالت نے تفصیلات طلب کیں، یاد رہے کہ مفتی صاحب کے ہر حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات رہے۔

خود ساختہ نیوز چینلز کی جانب سے یہ خبر دین سے بیزار طبقے کے لیے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق تھی ، بغیر کسی تصدیق کے اس خبر کو بھر پو ر انداز میں پھیلایا گیا تاکہ عوام الناس کو مذہب سے دور کیا جاسکے ، کیونکہ عوام الناس کے پاس نہ اس قدر ذرائع ہیں کہ وہ ہر خبر کی تصدیق کرسکیں اور نہ ہی وقت ۔خود مجھ تک یہ خبر اس اندازمیں پہنچائی گئی جیسے کہہ رہے ہوں کہ یہ ہیں آپ کے مولویوں کےکارنامے ۔

بہرحال بھلا ہو مفتی صاحب کے فرزندان کا جنہوں نے شرپسندوں کو ان کے حال پر چھوڑنے کی بجائے ایک انٹرویو کے ذریعے اس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا جو رقم بتائی گئی ہے وہ 05ارب 34 کروڑ 14 لاکھ 27 ہزار 147 روپیہ نہیں بلکہ 05 کروڑ 14 لاکھ 27 ہزار 147 روپیہ ہے اور اتنی رقم اس لیے ہے کہ جامعہ بنوریہ جہاں پر 5000 ملکی اور غیر ملکی طلبا نہ صرف تعلیم حاصل کررہے ہیں بلکہ ان میں سے اکثریت رہائش پذیر ہے ، اساتذہ کے لیے ادارے کے اندر ہی رہائش کا بندوبست کیا گیا ہے ، اساتذہ کی تنخواہوں میں حال ہی میں اضافہ کیا گیا ہے ، ادارے کا ماہانہ خرچ 2کروڑ سے زائد ہے ، غیر ملکی طلبا کی اکثریت غریب ترین ممالک سے ہے، انہوں نے انکشاف کیا کہ جامعہ کی کردار کشی کی مہم ایک طویل عرصے سے جاری ہے جسے ادارے کی جانب سے نظر انداز کیا جارہا تھا ، جامعہ کے آن لائن فتوں کا غلط استعمال کیاجارہا تھا وغیرہ وغیر ہ، مگر اب ان تمام لوگوں کے خلاف سائبر کرائم کی مدد سے کاروائی کی جائے گی۔

مندرجہ بالا واقعہ وطن عزیز میں شتر بے مہار سوشل میڈیا کا عکاس ہے ،پاکستان شائد دنیا کا واحد مہذب ملک ہے جہاں پر میڈیا کو اس قدر آزادی حاصل ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے وہ مائک اٹھاتا ہے اور صحافی بن کر پگڑیاں اچھالنا شروع کردیتا ہے، کسی کو اس بات کا خوف نہیں کہ اس کا محاسبہ ہو گا، کوئی اسے عدالت میں لے کر جائے گا جہاں پر اسے اپنے کالے کاموں کی وضاحت دینی ہوگی کیونکہ ہمارا عدالتی نظام اس قدر بوسیدہ ہے کہ شریف آدمی عدالت کی بجائے خاموش ذلت کو ترجیح دیتا ہے یا پھر ٹکے ٹکے کے صحافیوں کارزق بن جاتا ہے، اگر طاقت ور عدالت سے رجوع کرہی لے تو پھر غیر مشروط معافی مانگ کر دوبارہ وہی روش اختیار کر لی جاتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے سوشل میڈیا کو قانونی دھارے میں لایا جائے، خود ساختہ یوٹیوب چینلز پر پابندی لگائی جائے، چینل کھولنے کے لیے معیار مقرر کیا جائے اور چینلز کو حکومتی اتھارٹی کے سامنے جوابدہ بنایا جائے، کسی بھی شخص کی تصویر کو بغیر اجازت کے پوسٹ کرنے پر پابندی لگائی جائے، میڈیا اور عام افراد کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ و ہ دوسروں کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی نہ کریں، افواہوں کے پھیلانے والوں پر سخت ترین پابندی لگائی جائے، غیر قانونی آن لائن چینلز کے استعمال پر پابندی ہو، اسلامی اقدار کے خلاف مواد پھیلانے کو سخت ترین جرم قرار دیا جائے ۔

مندرجہ بالا احکامات کی خلاف ورزی کی صورت میں قید اور جرمانے کی سزائیں ہوں اور اس سلسلے میں سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر قانون پر عملدرآمد کیا جائے۔

اور ایک آخری بات کہ اگر اب بھی خود ساختہ میڈیا چینلز کو لگام نہ ڈالی گئی، جی ہاں اب جبکہ مریم بی بی، مریم نواز بی بی ، بشریٰ بی بی اور شہید بے نظیر بھٹو بی بی بھی اس کے شر سے محفو ظ نہیں ہیں، اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر یاد رکھیے یہ غلاظت سب کو اس قدر بدبودار کردے گی کہ ہمیں اپنے ہی وجود سے گھن آنے لگے گی اور ہم کوشش کے باوجود اسے کنٹرول نہیں کرسکیں گے، اس لیے خدا راہ ترقی یافتہ ممالک سے سبق سیکھتے ہوئے اس شتر بے مہار کو لگا م ڈالیے، حدود و قیود طے کیجیے اسی میں سب کی بھلائی ہے۔