مقامی حکومت،عوامی حکومت

لارڈ رپن جب وائسرائے ہندوستان بن کر برصغیر پاک و ہند میں آیا تو اس نے مشاہدہ کیا کہ مقامی آبادی اپنے انتظامی معاملات کو حل کرنے میں ناکام ہے۔ لہذا اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ہندوستا ن میں مقامی لوگوں کے ذریعے سے ایک ایسا نظام متعارف کروایا جائے جس میں مقامی لوگوں میں انتظامی معاملات کو از خود نپٹانے کی صلاحیت بیدار ہو سکے۔ لہذا اس نے 1882ءمیں برصغیر کے لوگوں کے لئے ایک نیا نظام متعارف کروایا جسے مقامی حکومت کا نظام کہا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اسے برصغیر میں اس نظام کا باوا یا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ میری تحقیق یہ کہتی ہے کہ لارڈ رپن کا متعارف کردہ یہ نظام کوئی نیا سسٹم اس لئے نہیں تھا کہ اس سے قبل ہندوستان میں پنچائت راج سسٹم پہلے سے نہ صرف موجود تھا بلکہ کامیابی سے چل بھی رہا تھا۔ مقامی لوگوں کا اس سسٹم پر اعتماد بھی تھا۔ لیکن انگریز جہاں بھی رہے انہوں نے اپنی حکومت کی چھاپ چھوڑنے کے لئے انتہائی عیاری سے ہمارے ہی نظاموںکو تجدید کے ساتھ ایسے پیش کیا کہ ہم ابھی تک سمجھ رہے ہیں کہ انگریز راج ہم سے کہیں بہتر تھا۔ میں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ جب کوئی قوم غلام بن جاتی ہے تو ان کی صلاحیتیں بھی سلب کر لی جاتی ہیں کیونکہ صلاحیتو ں کو صلیب پہ لٹکتے دیکھتے رہنے اور لاش کو سولی سے اتارنے کی جرآت پیدا نہ کرنے کا نام ہی غلامی ہے۔ اور غلام اس وقت تک غلام رہتے ہیں جب تک ان کے سر جھکے رہتے ہیں۔ کیونکہ سر جھکاﺅگے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا، اور اگر آپ سر نہیں جھکاتے تو پھر یاد رکھئے کہ،جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہو جائے گا۔

ایک امریکی خاتون جو کہ غلاموں کی آزادی کے لئے حکومت سے چھپ کر کام کر رہی تھی ان سے ایک بار پوچھا گیا کہ غلاموں کی آزادی کی تحریک میں آپ کو سب سے زیادہ کس بات کے لئے کام کرنا پڑا، تو انہوں نے جواب دیا کہ ”انہیں اس بات کا احساس دلانا کہ اب تم آزاد ہو“۔ بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے رام رام جاتے جاتے جاتا ہے اسی طرح سے غلامی کی زنجیروں کو توڑنا بھی اتنا آسان نہیں ہوتا، لیو ٹالسٹائی کہتا کہ غلاموں کو ان کی ذہنی آہنی زنجیروں سے آزاد کروانا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔

بات ہو رہی تھی کہ آخر مقامی حکومتوں کے نظام کو پاکستان میں اتنی پزیرائی کیوں نہ مل سکی جب کہ دنیا کی سیاسی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ان ملکوں کی ترقی کا گراف بہت تیزی سے اوپر گیا ہے جنہوں نے ایسے نظام کو اپنایا جس میں نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم کو ممکن بنایا گیاہو۔ کسی ملک میں اس نظام کو مقامی حکومتوں کا نظام، کہیں میونسپلٹی تو کہیں کاﺅنٹی کہا جاتا ہے۔ نام کوئی بھی ہو اصل مسئلہ اختیارات کی تقسیم اور نظام کا عملی اطلاق کا ہوتا ہے۔ اب کہنے کو تو ہم اس نظام سے صدر ایوب خان کے دور حکومت سے ہیں، جسے ایوب دور میں بنیادی جمہوریت کا نظام کہا گیا۔ اس سسٹم میں 80 ہزار کونسلرز کے انتخابات کے بعد انہیں حق ووٹ دینا تھا کہ جن کا مقصد صدر پاکستان کے الیکشن میں ووٹ دینا تھا۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا کہ جیسے گاﺅں کا لینڈ لارڈ کسی مزارع کو محض اس شرط پر ایک مربع زمین الاٹ کر دے کہ بدلے میں مجھے آپ کی وفاداری چاہئے اور کچھ نہیں تو فیصلہ آپ کریں کہ وہ مزارع تو زندگی بھر کی غلامی کو تیار ہو جائے گا۔ خیر ایوب دور کے علاوہ اب تک کی ہر حکومت نے مقامی نظام کو اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ بلکہ ہمیشہ سے ہی اس نظام کے تحت الیکشن کا انعقاد اس وقت ہوتا ہے جب حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے قریب ہوتی ہے۔ سوال یہ پیا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان میں اس حکومت کو اتنی اہمیت کیوں نہیں دی جاتی جبکہ پوری دنیا میں مقامی حکومت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ مقامی حکومت ہی عوامی حکومت ہوتی ہے۔ میرے ذہن میں مقامی حکومت کو نظر انداز کرنے کی چند وجوہات جو ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں امید ہے آپ بھی اتفاق فرمائیں گے۔

سب سے پہلی وجہ تقسیم دولت، کیونکہ ہمارے ہاں ایسا سیاسی نظام متعارف کروا دیا گیا ہے جس میں مقامی ایم پی اے اور ایم این اے کے علاوہ ترقیاتی اسکیموں پر پیسہ خرچ نہیں کیا سکتا۔ جبکہ اس نظام میں مقامی اور نچلی سطح پر دولت کی تقسیم کے لئے مقامی ڈی سی اور چئیرمین کو یہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ اس لئے ایک ایم این اے کے ہوتے ہوئے محلہ کے ایک کونسلر کی کیا اوقات کہ وہ اپنی علاقہ کا کام اس کی مرضی کے بنا سرانجام دے۔ دوسری اہم بات کہ اختیارات کی تقسیم، اس کی ایک سادہ سی مثال یوں پیش کی جا سکتی ہے کہ اسکول کے چپڑاسی کا تقرر وتبدل بھی مقامی ایم این اے کے بغیر ممکن نہیں سمجھا جاتا، اب مجھے آپ ہی بتائیں کہ کیا ایک ایم این اے کے پاس اتنا وافر وقت ہوتا ہے کہ وہ چپڑاسیوں کے تبادلے کرواتا پھرے۔ لیکن جس ملک میں چپڑاسیوں کے اکاﺅنٹ سے اربوں روپے نکل سکتے ہیں وہاں سب کچھ ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے اختیارات کو محلہ کی صفائی ، نالیوں کی ستھرائی اور خاکروبوں کو کنٹرول کرنے تک ہی محدود کردیا گیا ہے۔ عوامی مسائل کے حل کے لئے انہیں مقامی ایم پی اے یا ایم این اے کا انتظار کرنا پڑتا ہے جو کہ صوبائی یا مرکز میں بیٹھ کر اپنے اپنے کاروبارچلانے میں مصروف ہوتے ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر اس نظام کو اہمیت دے دی گئی تو ان کے اپنے اختیارات تقسیم ہو کر کم ہو جائیں گے۔

عمران خان صاحب بھی جب حکومت میں نہیں تھے تو ان کا خیال بھی دیگر سابقہ حکمرانوں کی طرح یہی تھا کہ اختیارات کی تقسیم کو جب تک نچلی سطح تک ٹرانسفر نہیں کیا جائے گا ملک تیزی سے اوپر نہیں جا سکتا۔ اب ماشااللہ سے ان کی حکومت کا ایک سال اور چند ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے وہ بھی اس صورت میں اگر اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی تحریک عدم تعاون کامیاب نہیں ہوتی، وگرنہ تو آنے والی حکومت ہی اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ مقامی حکومت کے انتخابات کروائے جائیں یا سابقہ حکومت پر ڈال دیا جائے۔ اب جبکہ خان صاحب اپنی حکومت کے مزے اڑا رہے ہیں تو انہیں یاد تک نہیں کہ ملک اس وقت تک تیزی سے ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ اختیارات کو نچلی سطح تک تقسیم نہیں کیا جاتا۔ لہذا خان صاحب آپ کی حکومت بھی شائد اسی لئے ملک کو ترقی کی راہ پر شائد اتنا گامزن نہیں کرپائی جتنی آپ نے امیدیں دلا رکھی تھیں۔ اگر آپ تحریک عدم تعاون سے بچ جاتے ہیں تو پھر ملک کو تیزی سے ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے والے منصوبے یعنی مقامی حکومت اور اختیارات کی تقسیم کو نچلی سطح تک پہنچانے کے لئے سرگرم ہو جائیے۔ اور ہمیں نظر آنا شروع ہو جائے کہ واقعی ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گیا ہے وگرنہ تاریخ آپ کو بھی انہیں الفاظ میں یاد کرے گی جن الفاظ میں سابقہ حکمرانوں کو یاد کرتی ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔