ماہِ رمضان اور ہماری ذمہ داریاں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رجب میرا، شعبان اللہ کا  اور رمضان میری اُمت کا مہینہ ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس بابرکت مہینے میں روزے رکھتے ہیں اور عام دنوں کی نسب زیادہ خشوع و خضوع سے عبادت کرتے ہیں۔ گھروں میں سحر افطار کے موقع پر خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہوتے ہی اشیائے خردونوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں ذخیرہ اندوزی کرنے والے مافیا کا وجود ہے۔ یہ مافیا عام دنوں میں بھی آٹا اور چینی کی ذخیرہ اندوزی سے مارکیٹ میں اشیاء کی قلت پیدا کرتا ہے۔ بعدازاں ذخیرہ کی گئی اشیاء منہ مانگے دام عوام کو بیچی جاتی ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “گنہگار ہی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں” (مسلم: 4120)۔ رمضان جہاں ہمیں نفسانی خواہشات سے چُھٹکارا حاصل کرنے اور نفس کو قابو کرنے کا حکم دیتا ہے وہیں ہمیں اس بابرکت مہینے میں لوگوں کے لئے مصائب کا سبب ہرگز نہیں بننا چاہئیے، کیوں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، “تاجر خوش بخت ہے اور ذخیرہ اندوز ملعون ہے”(سُنن ابن ماجہ:2153)۔ ملعون اس شخص کو کہا جاتا ہے جس پر لعنت کی گئی ہو۔ بروز قیامت میدانِ حشر میں جب میزان پر اعمال رکھے جائیں گے تو بہت سے لوگ گنہگار ہوں گے۔ ان لوگوں کو فقط رسول اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی وجہ سے بخشا جائے گا۔ اب وہی شفاعت کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس شخص پر اپنی لعنت بھیج دیں وہ شخص کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مستحق ہوگا؟۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا “جس شخص نے مسلمانوں پر ذخیرہ اندوزی کی اللہ تعالی اُس پر جذام (کوڑھ) اور افلاس مسلط کر دے گا” (ابن ماجہ: 2155)۔ بعض لوگ اس طرح کی احادیث پر طنز کرتے ہیں کہ ذخیرہ اندوز اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والے خوش و خرم رہتے ہیں، انہیں تو کچھ نہیں ہوتا ان کی خدمت میں عرض ہے یہ اللہ کی مشیت پر منحصر ہے کہ کسی کو اس دنیا میں سزا دے یا اس کو ڈھیل دے اور مہلت کے رسی دراز کرے۔ اسی طرح آپ نے بہت سے لوگ ایسے دیکھیں ہوں گے جن کے پاس دنیا کی تمام نعمتیں موجود ہیں پر ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ ان کے استعمال سے قاصر ہیں۔

موجودہ دور میں یہ مرض ہمارے اندر سرایت کرتا جارہا ہے حالانکہ گزشتہ ادوار میں دیکھا جائے تو 1965ء کی جنگ ہو یا پاکستان کے سخت ترین ملکی حالات، اس قوم نے اپنے مسلمان بھائیوں کی دل کھول کر امداد کی ہے. 2005 کے زلزلے سے متاثر ہونے والے افراد کی مدد کے لئے خواتین نے اپنے زیور بھی امدادی ٹیموں کے حوالے کیے تھے، تاکہ زلزلہ زدگان بھی ایک اچھی زندگی گزار سکیں اور زلزلہ زدگان کی بحالی کا عمل شروع کیا جا سکے۔ ہم اس طرح کے حالات میں تو اپنے بھائیوں کی مدد کرنے پہنچ جاتے ہیں مگر افسوس عام دنوں میں ہم ذخیرہ اندوزی اور مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر کے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔ حکومتی اراکین کو چاہیے کہ اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کئے جائیں تاکہ عوام الناس تک معیاری اور سستی اشیاء ماہ رمضان میں پہنچائی جا سکیں۔

ماہ رمضان میں تراویح و دیگر عبادات کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے، جب کہ ابلیس کو اس مہینے میں باندھ دیا جاتا ہے. سوچنے کی بات یہ ہے کہ ابلیس کی قید کے باوجود بھی لوگ گناہ کرنے اور ذخیرہ اندوزی سے کیوں باز نہیں آتے؟ اس کا بہت سادہ سا جواب یوں ہے کہ گیارہ مہینے اس طرح کے کام سرانجام دینے کے بعد ہمارا دل اور دماغ اس چیز کا قائل ہو چکا ہوتا ہے کہ ہمارا اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا حالانکہ اللہ تعالی نے ہر ایک کے رزق کا ذمہ خود لیا ہے۔ بچہ ابھی دنیا میں نہیں آتا کہ اس کے استعمال کی تمام اشیاء اور اس کی ضرورت کی تمام چیزیں اس کے گھر والے پہلے سے خرید چکے ہوتے ہیں۔

انسان کو کس چیز پر مان ہے؟ انسان تو دنیا میں بغیر لباس کے آتا ہے اور جو رب اس کو لباس اور تمام لوازمات سے نوازتا ہے کیا اس نے اس کے لیے رزق کا انتظام نہیں کیا ہوگا؟۔ فرمان باری تعالی ہے، واللہ خیر الرازقین: اللہ ہی بہتر رزق دینے والا ہے۔ تو کیا ہمیں اللہ کے فرمان پر کسی قسم کا کوئی شبہ ہے. بزرگان دین تو ایک وقت کی روٹی کھایا کرتے تھے اور باقی چیزیں صدقہ کردیا کرتے تھے، دو وقت کا کھانا بھی اپنے پاس جمع نہیں رکھتے تھے. کیوں کہ انہیں اللہ تعالی کے رازق ہونے پر کامل یقین تھا کہ جو اگر ایک وقت کا کھانا دے سکتا ہے تو باقی وقت کا کھانا دینے پر بھی قادر ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ماہ صیام میں ہم لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی بجائے لوگوں کے لیے سہولت کا باعث بنیں، حکومت کی طرف سے قائم کردہ سستا رمضان بازار کہنے کو تو سستی اشیاء فراہم کرتا ہے مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ سستا رمضان بازار میں اکثر اشیاء غیر معیاری موجود ہوتی ہیں، جہاں اشیاء معیاری موجود ہوں وہاں لوگوں کی اتنی لمبی قطاریں بنی ہوتی ہیں کہ سستی اشیاء عام آدمی کی دسترس سے باہر رہتی ہیں۔ بجائے سستا رمضان بازار لگوانے کے حکومت کو چاہیے کہ عام دکانوں پر ریٹ لسٹ آویزاں کی جائے اور سستا رمضان بازار کے ریٹ پر تمام دکانوں پر اشیا کو بہم پہنچایا جائے تاکہ تمام لوگ یکساں استفادہ حاصل کر سکیں۔

حصہ
mm
انجینئر محمد ابرار ایم فل سٹرکچرل انجینرنگ کے طالب علم ہیں۔ شعبہ صحافت سے وابسطہ ہیں اور روزنامہ لاہور پوسٹ کے ڈسٹرکٹ رپورٹر ہیں۔ کافی عرصہ سے حالات حاظرہ،مذہبی، سیاسی، سماجی اور اصلاحی موضوعات پر مختلف ویب پیجز پر لکھتے ہیں۔ جسارت کے لئے بطور خاص لکھ رہے پیں۔