23۔مارچ 2022 اور عدم اعتماد

کچھ عرصہ پہلے سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے میں منعقدہ یوم پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کسی عرب دانشور نے تاریخ بیان کرتے ہوئے کہاکہ ایک عرب سیاح نے پاکستان بننے کے کئی سال پہلے ہند کے اپنے سفر کے دوران جب ہندوﺅ ں اور مسلمانوں کے عقائد اور رہن سہن کا مشاہدہ کیا تو اپنی تجربے کی بنیاد پر تحریر کیا تھاکہ یہ دونوں قومیں کبھی بھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ ایک عرصہ گزر گیا، مسلمان حکمرانوں کی ہندوﺅں سے رواداری، مسلم دنیا سے آئے ہوئے صوفی بزرگوں کی اسلام کے پر امن، درگزر اور ا نسانیت سے محبت کے فلسفے کی وجہ سے کروڑوں ہندو مسلمان ہو گئے تھے۔

مسلم مغل حکمران طاﺅس و رباب میں پڑھ گئے اورمسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت پر انگریزوں نے تجارت کے بہانے مکاری سے قبضہ کر لیا۔ مسلمان ہند پر ایک ہزار سال حکمران رہے تھے اور عوام کے اندر ان کی جڑیں تھی۔ اس خدشہ سے کہ یہ جہاد پر یقین رکھنے والی مسلم قوم پھر ان سے اقتدار چھین نہ لے، اس کا زور ختم کرنے کے لیے انگریزوں نے مسلمانوں کو سخت سزائیں دیں۔ کسی کو کالا پانی، جزائر انڈمان میں قید رکھا گیا۔ کچھ کو توپوں کے سامنے کھڑے کر کے اُڑا دیا گیا۔کچھ کو درختوں پر لٹکا کر شہید کر دیا۔ اُن کی زمینوں پر قبضے کر لیے۔ سزا کے طور پراپنی حکمرانی کے دوران مسلمان اکثریت والے علاقوں میں انڈسٹری نہیں لگائی۔ زیادہ تر انڈسٹری ہندوﺅں کی اکثریت والے علاقوں میں لگائیں۔ مسلمانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی پالیسیاں اختیار کیں۔ ہندوﺅںکو آگے آگے رکھا اور مسلمانوں کو اپنے پورے دور حکمرانی میں دبائے رکھا۔ پھر انگریز ہند پر ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصہ حکومت کرنے کے قابل نہیں رہے اور آخر میں ہند چھوڑنے پرمجبور ہوئے۔

شروع شروع میں مسلمانوں اور ہندوﺅں نے مل کر کانگریس کے پلیٹ فارم سے آزادی کی تحریک چلائی۔ شروع میں مسلمانوں کے مسیحا قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے بھی کانگریس میں رہ کر ہند کی آزادی کی جد وجہد کی۔ مگر آخر میں ہندوﺅں کے عقائد اور مسلمانوںکے ساتھ تعصب کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہوئے وہی بات سمجھ میں آئی جو ہم نے اُوپر عرب سیاح کے حوالے سے بیان کی ہے ۔ قائد اعظم ؒ نے ثابت کیا کہ مسلمان ہند میں اقلیت نہیں بلکہ ایک مکمل قوم ہیں۔ قائد اعظم ؒ نے برصغیر کی تقسیم کے وقت دو قومی نظریہ پیش کیا اور دو قومی نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہندو بت پوجتے ہیں مسلمان صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں مسلمان اس کو ذبح کرتے ہیں۔ ہندو مسلمانوں کو ناپاک سمجھتے ہیں اورایک ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے۔ ہندوﺅں اور مسلمانوں کے ہیروز اور دشمن الگ الگ ہیں۔ قائد اعظمؒ نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا۔ برصغیر کے کونے کونے میں پاکستان کا مطلب کیا ” لا الہ الا اللہ“ مستانہ نعرے لگنے لگے۔ بن کے رہے گا پاکستان ۔لے کے رہیں گے پاکستان۔ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ، کے نعروں سے برعظیم لرز اُٹھا۔ تحریک پاکستان کے دوران،  15نومبر1942ءمیں قائد اعظم نے آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس میں اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ” مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیسا ہو گا۔پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہو سکتا ہوں ۔ مسلمانوں کے طرز حکومت آج سے تیرا سو سال پہلے قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد اللہ قرآن مجیدہماری راہنمائی کے لیے موجود ہے۔ اور قیامت تک موجود رہے گا“

23 مارج 1940ءکو منٹو پارک لاہور میں پورے برعظیم کے مسلمان قائد اعظمؒ کی قیادت میں جمع ہوئے تھے۔ اُس وقت کی شاتر انتظامیہ نے افوائیں پھیلائی تھیں کہ اس پروگرام کو منسوخ کر دیا جائے کیوں کہ لاہور میں لاءاینڈ آڈر کا مسئلہ ہے۔ جبکہ گانگریس نے دہلی میں ہند کی تقسیم کے خلاف پروگرام رکھا تھا۔ ان حالات میں 23 مارچ کو قرارداد لاہور پیش ہوئی۔ 24 مارچ کو اسے شیر بنگال نے مسلم لیگ کے اجلاس میں پیش کیا جسے منظور کیا گیا۔ مگر قائد اعظم ؒ نے اس کی تاریخ کو 23 مارچ ہی رکھا۔ جسے بعد میں قرارداد پاکستان کہا گیا۔ قراداد مقاصد 12 مارچ 1949ءکوآئین کا دیباچہ بنایا گیا۔ پھر پاکستان کا آئین 1954ءاور 1973ءکے اسلامی آئین کا حصہ بنا ۔ 1956ءکے اسلامی آئین کو 23 مارچ کو نافذ کیا گیا۔ پاکستان15 اگست 1947ء کو وجود میں آیا تھا مگر قائد اعظمؒ اور مسلم لیگ کی قیادت نے یوم پاکستان 14 اگست کو منانا منظور کیا۔ اس طرح پاکستانیوں کے لیے

مارچ کا مہینہ ایک یاد گار اور 23 مارچ پاکستان کی اساس کا دن ہے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی لیڈر شپ نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 1956ءکے آئین کو منظور کیا تھا۔ مگر ڈکٹیٹر ایوب خان نے مارشل لا لگا کر اس کو منسوخ کیا۔ اسی وجہ سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد پڑی ۔ ایٹمی اور اسلامی پاکستان دشمنوں کی نظر میں کھٹکتا رہتا ہے۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اسے دل سے تسلیم نہیں کیا۔ ہمارے حکمرانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے بھارت نے مشرقی پاکستان میں اپنی بنائی ہوئی مکتی باہنی کی مدد سے افراتفری پھیلا کر قومیت اور حقوق کے نام سے ہمارے بنگالی بھائیوں کو اُکسا کر ہم سے علیحدہ کر دیا۔ کراچی میں بھی لوگوں کو حقوق ، لسانیت اور قومیت کی بنیاد پر اُکساتا رہا ہے۔ ان کو مالی اور اسلح سے مدد بھی دیتا رہا ہے۔ اس کا انکشاف بھارتی جاسوس کلبھوشن دیو نے اپنے اعترافی ویڈیو بیان میں کیا ۔ بھارت کا دہشت گرد وزیر اعظم مودی اپنے یوم جمہوریہ پر اعلان کرتا ہے کہ مجھے بلوچستان اور گلگت سے مدد کرنے کے لیے فون کالز آرہی ہیں۔ میں پاکستان میں گھس کر پاکستان کو سبق سکھاﺅں گا۔

اب سال2022ءکے 23مارچ کے موقعہ پراپوزیشن نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے ایک طرف تو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چلائی ہوئی ہے اور دوسری عجیب اتفاق کہ کرپشن میں سزا یافتہ مریم صفدر مودی کی طرح کہہ رہی ہے کہ نواز شریف ملک سے باہر ہے اور اس نے تمہارے گھر میں گھس کر حملہ کیا۔ بلاول اپنے نانا کی طرح دھمکی دے رہا ہے کہ میں او آئی سی کا اجلاس نہیں ہونے دوں گا۔بلاول کے نانا نے بھی مشکل وقت میں پولینڈ کی قراداد پھاڑ دی تھی اور مشرقی پاکستان جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی تھی۔ فضل الرحمان نے تو2018ءکے الیکشن کے بعد اسمبلی نہ چلنے دینے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ 23مارچ کے دن فضل الرحمان نے اسلام آباد میں سیاسی شو کی دھمکی دے رکھی تھی۔ ان حالات میں اس سال 23 مارچ آیا ہے۔ صرف جماعت اسلامی ہے جو صحیح اپوزیشن کا کرادر ادا کر رہی ہے۔ متحدہ اپوزیش سراج الحق سے حمایت کے لیے ملاقاتیں کی مگر سراج الحق کا کہنا ہے کہ آپ اپنے مفادات کے لیے عدم اعتماد لائے ہیں۔آپ میں کوئی بھی پاکستان کی اساس اسلامی نظام کی بات نہیں کر رہا۔ اس لیے جماعت اسلامی غیر جانبدار رہے گی۔ اور اس طرح یہ 23 مارچ بھی ان حالات میں گر جائے گا۔ غریب عوام مہنگاہی اور کرپشن کے چکر سے باہر نہیں نکلیں گے۔اللہ مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان مثل مدینہ ریاست کو اسلام کے بابرکت نظام سے مالامال کرے آمین۔