کیا تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی؟

تاریخ بتلاتی ہے کہ خان صاحب نے جب ن لیگ کی حکومت کے خلاف مورچہ لگایا تھا تب اگر پانامہ نہ آتا تو میاں صاحب 5 سال پورے کر جاتے ، ایسے ہی اگر دورہ روس نہ ہوتا تو شاید خان صاحب بھی 5 سال پورے کر جاتے، بدلتے عالمی حالات ہماری اپوزیشن کے فیور میں چلے گئے ہیں، مہنگائی، بے روزگاری اور روس والے واقعہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپوزیشن کے رہنماؤں نے وزیراعظم پاکستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی ہے، عام بحث یہ چل رہی ہے کہ پلڑا حکومت کا بھاری ہے یا اپوزیشن کا، میں اپنے قارئین کے سامنے چند خبروں کا ریکارڈ رکھتا ہوں اس کے بعد ممکنہ فیصلے کا منظر آپ کی نظروں کے سامنے آ جائے گا، خبر ہے کے وزیراعظم سندھ آئے اور پیر پگارا GDA سے ملنا چاہتے تھے لیکن پیر پگارا کی طرف سے جواب ملا کہ ان کی طبعیت ناساز ہے ملاقات نہیں ہو سکتی، وزیراعظم پاکستان نے BAP یعنی بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کو ملاقات کے لئے بلوایا تو انہوں نے جواب دیا کہ ابھی ہمارے ارکان مکمل نہیں ہیں، فی الحال ملاقات نہیں ہو سکتی، متحدہ نے ملاقات تو کی لیکن میڈیا بریفنگ میں کہہ دیا کہ ہمارے سامنے سارے آپشن کھلے ہیں، ق لیگ کے پاس وزیراعظم خود چل کر گئے لیکن چودھری شجاعت حسین مولانا فضل الرحمان صاحب کے پاس پہنچ گئے اور زرداری صاحب سے بھی ملاقات کی، ق لیگ نے وزیراعظم صاحب پر یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر آپ کی اپنی جماعت بکھری تو اتحادی آپ کے ساتھ کھڑے نہیں رہ سکیں گے۔

ق لیگ کے بیان کی روشنی میں تحریک انصاف پر نظر ڈالتے ہیں کہ یہ جماعت بکھر رہی ہے یا نہیں، سب سے پہلے نظر ڈالتے ہیں تحریک انصاف سندھ پر کہ جہاں تحریک انصاف نے 9 مارچ کو سینیٹ کے ضمنی انتخاب کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن تحریک انصاف کے 4 ارکان سندھ اسمبلی آئے اور ووٹ پیپلز پارٹی کو دیا، سندھ کے بعد حالات پنجاب کے بھی وزیراعظم پاکستان کے لئے اطمینان بخش نہیں ہیں گیم چینجر جہانگیر ترین کے پاس 20 پنجاب اسمبلی کے ارکان کا گروپ موجود تھا ہی ایسے میں 40 ارکان اسمبلی کا گروپ لے کر عبدالعلیم خان بھی ان سے جا ملے، ترین گروپ کا اصل نشانہ عمران خان جبکہ علیم خان گروپ کا اصل ہدف عثمان بزدار ہیں، یہ دو گروپ زیر بحث تھے ہی پتہ چلا ملک غضنفر عباس چھینہ کا 14 ارکان اسمبلی کا الگ گروپ سامنے آگیا، ساتھ ہی فیصل آباد کے MNA حضرات کے الگ گروپ کی خبریں بھی چلنے لگیں، پنجاب اور سندھ سے خبریں تھمی نہیں تھیں پتہ چلا سردار یار محمد نے بلوچستان میں الگ مورچہ لگا لیا ہے اور خیبر پختونخوا میں BAP کے 4 ارکان نے بھی الگ اجلاس کر کے حکومت پر سخت تنقید کر دی ہے، یہ تو وہ گروپس ہیں جو میڈیا پر آ چکے، شہباز شریف اور زرداری صاحب کے خفیہ رابطوں سے جب پردہ ہٹے گا تو اللہ جانے اندر سے کیا نکلے گا اس کے ساتھ لندن میں میاں نواز شریف، جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کی ملاقاتوں کی بھی مارکیٹ میں بازگشت ہے کہ مستقبل کا اصل لائحہ عمل وہاں طے ہو رہا ہے،

پارلیمنٹ لاجز میں جو تماشا ہوا اس پر بھی آخرکار حکومت کو سبکی ہوگی، عدم اعتماد کے حوالے سے سب کی نظریں طاقتور لوگوں پر تھیں، گذشتہ کل DGISPR نے میڈیا بریفنگ کی جس میں بتایا گیا کہ 9 مارچ کو دہشت گرد بھارت نے پاکستان میں غیر مسلح میزائل بھیجا تھا، بھارت سے نکلتے ہی وہ میزائل پاکستان کے نشانے پر آگیا تھا، لیکن میاں چنوں کے قریب اسے گرایا گیا بلاشبہ مودی دہشتگرد اور سفاک انسان ہے، مودی کی وجہ سے خطے میں بدامنی پھیلی ہوئی ہے، اس میڈیا بریفنگ کے دوران جب ترجمان سے سوال ہوا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ پاک فوج ان کے ساتھ ہے تو اس پر ترجمان میجر جنرل بابر افتخار صاحب نے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا کہ پاک فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں، پاک فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے یہی ہم سب کے لئے بہتر ہے، یعنی جو لوگ یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ فلاں حکومت کے ساتھ ہے یا فلاں حکومت کو بچا لے گا تو یہ خوش فہمی اب دور ہو جانی چاہئیے اب وزیر اعظم صاحب کو اپنے تدبر اور صلاحیت سے خود اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام کرنا ہے، لیکن اپوزیشن کا اعتماد اتنا بڑھا ہوا ہے کہ وہ صرف وزیراعظم نہیں بلکہ صدر پاکستان کو بھی ہٹانا چاہتے ہیں، جس کے لئے انہوں نے آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان صاحب کے نام پر اتفاق بھی کر لیا ہے یعنی آئندہ صدر پاکستان ان دونوں شخصیات میں سے ایک ہوگا، جو عارف علوی کی بقایا مدت پوری کرے گا۔

پارلیمنٹ لاجز میں گرفتاریوں کا جو عجیب واقعہ پیش آیا وہ سب کے سامنے ہے۔ میرا ایک سوال ہے خان صاحب سے کہ اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک جب شروع کی تو آپ نے تحریک عدم اعتماد کے مقابلے میں اپنی ساڑھے تین سالہ کارکردگی بتانی تھی لیکن حیرت ہے کہ آپ نے اخلاقی اقدار اور دلائل سے ہٹ کر بازاری انداز اختیار کیا اور اپنی اصل اوقات بتانا شروع کر دی۔ وزیر اعظم صاحب کے رد عمل سے یوں محسوس ہوتا ہے بظاہر خان صاحب کے گھر جانے کا وقت بھی آگیا ہے۔

‏مولانا جمال الدین ایم این اے کو پارلیمنٹ لاجز سے اس طرح دن دیہاڑے اغوا کرنا اور تشدد کرنا خان صاحب کی ذہنی پستی کی عکاسی کرتا ہے پاکستان کا ہر دین پسند اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کی مذمت کرتا ہے داڑھی پگڑی کے تقدس کو پامال کرنے پر ہم شدید غم و غصے سے اس فعل کی مذمت کرتے ہیں!