میری چڑیا روٹھ گئی

 

چڑیا سے کون واقف نہیں، سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی اپنی چہچہاہٹ سے صبح کا اعلان کرتی ہے۔ یہی شور شام ڈھلے بھی سنائی دیتا تھا۔ بھورے رنگ کی چھوٹی سی ننھی منی سی چڑیا جس کی چونچ مضبوط، دم چھوٹی مگر چوڑی ہوتی ہے۔ یہ گھریلو چڑیاں گھروں میں بسیرا کرتیں ادھر ادھر پھدکتی نظر آتی ہیں۔ ہلکی سی آہٹ پر ڈر کر اڑ جاتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ دانہ چگتی ہیں ساتھ ہی ساتھ یہ حشرات خور بھی ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق پرندوں کی جماعت پاسر ڈومیسٹیکس ( Domesticus Passer) سے ہے۔ یہ پیاری چڑیاں جو کچھ سال پہلے تک ہر گھر کی رونق ہوا کرتی تھیں۔ اب آہستہ آہستہ ہم سے روٹھ گئی ہیں۔ ان کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ اب پہلے کی طرح ان کی چہکار علی الصبح سنائی دیتی ہے نہ ہی شام ڈھلے۔

بقول شاعر: اب تو چپ چاپ شام آتی ہے،  پہلے چڑیوں کے شور ہوتے تھے

اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ جن میں درختوں کا کم ہو جانا، فصلوں پر حشرات کش کیمیکلز کا استعمال، ماحولیاتی آلودگی، ٹریفک اور دیگر بے ہنگم شور، بڑھتی ہوئی جدیدیت، شہری ضروریات میں اضافہ، شہروں میں کنکریٹ کا سیلاب شامل ہے۔ پرانے طرز تعمیر میں چوبارے ہوتے تھے جو اب کہیں نظر نہیں آتے یوں چڑیوں کو گھر بنانے کے لئے موزوں جگہ کا دستیاب نہیں ہوتیں۔ پنجابی شاعر سلطان کھاروی اس دکھ کو بیان کرتے ہیں،

؎ سوچ رہیاں جے لینٹر جہیاں چھتاں پیندیاں رہن گئیاں

لے کے بوٹ وچاریاں چڑیاں کہڑی تھاویں بہن گیاں

کرونا کی وبا کے دوران جب انسان گھروں میں محصور تھے تو دیگر حیات کے ساتھ ساتھ چڑیوں کو بھی سکون کا سانس لینے کا موقع ملا۔

ہر سال 20 مارچ کو عالمی یوم چڑیا اس احساس کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ ہم کیسے اپنے ننھے محسنوں کے دانستہ یا غیر دانستہ خاتمے کا سبب بن رہے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ ننھی سی چڑیاں ہماری محسن ہیں؟ یہ ہمارے لئے کس قدر مفید ہیں؟ یہ ماحولیاتی توازن کو قائم رکھنے میں کتنا اہم کردار ادا کرتی ہے؟ حشرات کی آبادی کو کنٹرول میں رکھنے میں مددگار ہیں۔ چڑیا اپنے بچوں کو الفا اور کیٹ ورم نامی حشرات کھلاتی ہیں جو فصلوں کے لئے انتہائی مضر ہوتے ہیں۔ یہ کیڑے فصلوں کے پتوں اور بوٹی پر حملہ آور ہوتے ہیں اور فصلوں کو تباہی سے دوچار کرتے ہیں۔ اسکے علاؤہ مون سون کی بارشوں کے بعد جب ہزاروں اقسام کے حشرات نمودار ہو جاتے ہیں تو یہی چڑیاں ان حشرات کی صفائی کا کام بھی کرتی ہیں۔ چڑیاں بیجوں کے پھیلاؤ کا قدرتی ذریعہ ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کی قدرتی انڈیکیٹر ہیں۔ شکاری پرندوں کی خوراک ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ قدرتی گلوکار ہیں جو ماحول کی خوبصورتی کا لازمی جزو ہیں۔

چڑیا، ایشیاء سمیت تمام براعظموں میں پائی جاتی ہیں۔ روئیل سوسائٹی آف لندن کی ایک تحقیق کے مطابق چڑیا اور انسان کا باہمی رشتہ گیارہ ہزار سال پرانا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ دیگر پرندوں کی تعداد میں تو اضافہ ہوا ہے مگر بدقسمتی سے چڑیاں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں چڑیوں کی تعداد میں 80 فیصد تک کمی آئی ہے۔ چڑیاں نقل مکانی نہیں کرتیں بلکہ ایک ہی علاقہ میں رہتی ہیں۔ دنیا میں 26 اقسام کی چڑیاں پائی جاتی ہیں برصغیر میں ان کی چھ اقسام پائی جاتی ہیں۔ جن میں کوئٹہ کی مشہور چڑیاں سائرہ اور گل سر بھی شامل ہیں۔

ہم چڑیوں کو واپس لانے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟

چڑیاں ہم سب کی محنت اور محبت سے واپس آئیں گی اس لئے زیادہ سے زیادہ درخت اگائیں،چھتوں پر چڑیوں کے لئے دانہ پانی رکھیں،ان کے لئے گھر بنائیں،اپنے گھروں اور باغات میں مضر صحت کیڑے مار ادویات کا استعمال نہ کریں،ماحولیاتی آلودگی پر قابو پائیں یہ انسانی حیات کے لئے بھی نقصان دہ ہے،جدیدیت کے چکر میں ہم اپنا اپنے ماحول اور بچوں کا بہت نقصان کر چکے ہیں۔

دنیا بھر میں یہ دن کیسے منایا جاتا ہے،

بچوں کے لئے پارٹی رکھی جاتی ہے۔

اس دن کے حوالے سے واک اور سیمینارز ہوتے ہیں

پوسٹر ڈیزائین کئے جاتے ہیں۔

چڑیوں کے لئے گھر بنائے جاتے ہیں۔