معصوم بیٹی کا قتل ! قصور وار کون؟

سوشل میڈیا پر کئی روز سے گردش کرنے والی ایک غمناک خبر نے ہر انسان کو رنجیدہ کر رکھا ہے۔خبر کے مطابق میانوالی کے گاو¿ں داو¿د خیل میں ایک باپ نے اپنی7 دن کی ننھی سی بچی کو5فائر مارکر قتل کر دیا ،کیونکہ اُسے بیٹی پسند نہیں تھی۔اُسے بیٹا چاہئے تھا۔زمانہ ءجاہلیت میں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کرنے کا رواج عام تھا لیکن اسلام کے آنے کے بعد یہ سلسلہ تھم گیاتھا۔ بیٹیوں کو قتل کئے جانے کے قصے ہم کتابوں میں پڑھتے تھے۔کہتے ہیں کہ باپ اگر شریعت جاننے والا ہو تو پھر وہ اپنی بیٹی کوقتل نہیں کرتا بلکہ اُسے ہر خوشی دینے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ بیٹی تو رحمت ہوتی ہے۔اس غمناک واقعے نے مجھے سخت پریشان کیا اور سب سے بڑی دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک معصوم پھول جیسی کلی کو اُس کے ظالم باپ نے 5گولیاں مار کر اس کی زندگی چھین لی ،اور اس کا ہاتھ نہیں کانپا۔اس کی اندرونی کیفیت دیوانگی کی حدوں کو چھو رہی تھی۔میں سوچنے لگی۔۔۔ اصل قصور وار کون؟ معصوم بچی کاقاتل اُس کا باپ ہے یا اُس شخص کی ماں؟؟؟ بہت دیرسوچنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی کہ90 فیصد قصور اس ناہنجار شخص کی ماں کاہی ہوگا۔

ہمارے ہاں یہ سوچ عام ہے کہ ہم میں سے اکثریت ”بیٹے “کی خواہاں ہوتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ یہ مائیں ہی ہوتی ہیں جو اپنے بیٹے کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھاتی ہیں کہ پوتی نہیں” پوتا “چاہیے اوریہ کہ” بیٹی “بوجھ ہوتی ہے۔ بیٹا پیدا ہونے پر گھر میں مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں جب کہ بیٹی کے پیدا ہونے پرہم لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔اولاد نصیب سے ملا کرتی ہے۔بیٹی ہو یا بیٹا۔اس میں کسی عورت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔یہ اللہ کی دین ہے۔وہ انسان کو جس قابل سمجھتا ہے اُسے عطا کرتا ہے۔

اگر ہم معاشرے سے برائی کو ختم کرنا چاہتے ہیں توہمیں اپنی بہن بیٹیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دینا ہو گی،بناءتربیت، تعلیم کسی بھی کام کی نہیں ہوتی۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم بیٹی بیاہتے وقت پیسہ دیکھتے ہیں، شرابی جواری کوئی معنی نہیں رکھتا اور بیٹا بیاہتے وقت جہیز ہماری نظر میں اہم ہے۔لڑکی کو گرہستن ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔بچوں کو دین کی سمجھ ہے یا نہیں۔۔؟خاندان کیسا ہے۔۔؟ان باتوں کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں رہی۔

بیٹاں باعثِ رحمت ہوتی ہیں ،ہماری نسل کو آگے بڑھانے اور اولاد کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی بحیثیت بیوی عورت ہی پوری کرتی ہے۔یہی بیٹیاں بڑی ہو کر تکمیل کائنات کے عمل کو آگے بڑھاتی ہیں۔مردکومعاشرے میں بھیڑیاہے، جانور ہے، جیسے ناموں سے مخاطب کیا جاتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ بحیثیت مرد ہم ”احساس ذمہ داری“سے ہی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ہمارے نوجوان عورت کی عزت و تکریم بھول چکے ہیں ایسے لوگوں کوعورت کی قدر نہیں تو وہ ”بیٹی“کی قدر و اہمیت کیسے جان سکتے ہیں۔ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ

بندہ مرد بننے سے پہلے ایک لڑکاہوتا ہے ، اس سے پہلے وہ ایک بچہ ہوتا ہے اور جب وہ بچہ ہوتاہے تو وہ اپنی ماں کی گود میں ہی پرورش پاتا ہے۔یہی بچہ جب پہلی بار کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کی ماں اسے پہلے پیار سے سمجھاتی ہے ،اور نہ سمجھنے پر زور دارتھپڑ رسید کرتی ہے تو بچہ ہر غلطی کرنے سے پہلے سو بار سوچتاہے کہ یہ کام غلط ہے۔

بیٹی کو قتل کرنے کے واقعات میں یہی ایک سوچ کارفرما ہے کہ مائیں اپنے بچوں کے دل و دماغ میں یہ بات ڈال دیتی ہیں کہ انہیں بیٹا چاہئے۔یہی سوچ معاشرتی بگاڑ کا سبب بن رہی ہے۔کتنی ہی بچیاں اس بناءپر قتل کی جا چکی ہیں اور کتنی خواتین کو بیٹی پیدا کرنے کی وجہ سے طلاقیں دی جا چکی ہیں یا انہیں بھی موت کے گھاٹ اتار اجا چکا ہے۔زمانہءجاہلیت کی یہ روایا ت آج بھی ہمارے بعض علاقوں میں زندہ ہیں۔ماوؤں کی اولاد کے معاملے میں لاپرواہی انہیں بسا اوقات اسے تختہ ءدارتک لے جاتی ہے اور ماں کی بہترین تربیت بچے کودنیا میں بادشاہ بنادیتی ہے۔ عورت کیا ہے؟ یہ مردنہیں جان سکتا مگر مرد کی کمزوری عورت منٹوں میں نہیں سیکنڈوں میں جان جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو وہ طاقت عطا کی ہے کہ وہ ایک مرد کو مکمل بدل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

فیشن زدہ مغربی سوچ و فکر کی حامل مائیں بچوں کی پرورش کیا کریں گی؟اور ان کی تربیت پر کیا دھیان دیں گی۔ آزادی نسواں کے نام پر سڑکوں پر ناچتی گاتی عورتیں اپنے مقام سے بھی لا علم ہیں۔ ہم دینی تعلیم کے بجائے دنیاوی تعلیم کو فوقیت دیتے ہیں۔ اسکول، کالجوں یونیورسٹیوں میں ناچنے گانے والی تقریبات معمول بن چکی ہیں۔ہمارے نوجوان اخلاقی اقدار سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ہمیں بیٹوں کی آرزوکرنا اور بیٹیوں کو زحمت سمجھنے والی سوچ کو بدلنا ہو گا۔میانوالی میں معصوم بچی کا قتل ان ماوؤں کےلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ جو ”پوتوں “ کی آرزو میں اپنے بچوں کو قتل جیسے قبیع فعل کے ارتکاب پر مجبور کرتی ہیں۔گھروں کی سبھی رونقیں بیٹیوں کے دم قدم سے ہیں۔بیٹی کا پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کا انعام ہے کہ جو اپنے کرم سے ہمیں ”رحمت“ عطا کرتا ہے۔موجودہ دور میں ہم اس قسم کے واقعات اس وقت تک نہیں روک سکتے جب تک ہم ایک عورت کی سوچ کو نہیں بدلیں گے۔ مائیں اگر اپنے بچوں کو بیٹیوں کی قدر و قیمت سے آگاہی فراہم کریں تو ایسے واقعات کہیں بھی رونما نہ ہوں۔معصوم بچی کے قاتل باپ کی کسی صورت معافی نہیں ،اُسے سرعام پھانسی دینا ہوگی۔بدبخت ہے وہ شخص جس نے اللہ کی عطاکردہ ”رحمت “کو اپنے لئے” زحمت“ بنا لیا ہے۔روزمحشر بھی اس کی معافی نہیں ہوگی۔قاتل باپ نے اپنے ہی جگر گوشے کی جان لے کر اپنی دنیا و آخرت برباد کر لی ہے۔بچی کی روح اُسے کبھی چین نہیں لینے دے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔