عورت مارچ اور اصل حقائق

پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا ملک ہے جس کی اکثریت آبادی مسلمان ہے. دیگر مذاہب بھی اس میں آباد ہیں جن کو اپنے مذہب کے مطابق عبادات کرنے کی آزادی حاصل ہے. پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہونے کے باوجود پچھلی چند دہائیوں میں پاکستان میں فحاشی و عریانی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے. اس کے پھیلاؤ میں بہت سے محرکات موجود ہیں. لبرل ازم و سیکولرازم کی فضا مملکت خداداد پاکستان میں قائم کرنے کی کوشش ہر دور میں کی جاتی رہی ہے مگر حامیانِ اسلام نے ان عناصر کے تمام ہتھکنڈوں کی ہر دور میں سرکوبی کی ہے. یہ عناصر کبھی عورت مارچ کے روپ میں عورت کے حقوق نسواں کو لے کر میدان میں نکلتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی سول سوسائٹی کے روپ میں دشمنانِ دین و ملت کے نام کی موم بتیاں روشن کرتے دکھائی دیتے ہیں.

پوری دنیا میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے. پاکستان میں بھی پچھلے تین چار سال سے عورت مارچ کے نام سے جلسے منعقد کر کے اس دن کو منایا جاتا ہے. دیکھا جائے تو اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اس نے جہاں عورت پر کچھ حدود و قیود نافذ کی ہیں وہیں اس کا درجہ بھی بعض جگہ پر مرد سے بلند کیا ہے. اس کی عصمت و عفت کی حفاظت کے لئے اگر اسے جسم کو ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے تو مردوں کو نگاہیں نیچے رکھنے اور غیر محارم کو دیکھنے سے منع کیا گیا ہے. شعائر اسلام کو اپنانا عورت کے محفوظ ہونے کی ضمانت ہے. حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب قرآن کریم کی پردہ کے احکام والی آیت نازل ہوئی تو انصار کی خواتین اپنے گھروں سے اس طرح نکلیں کہ گویا ان کے سر اس طرح بے حرکت تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور ان کے اوپر کالا کپڑا تھا، جس کو وہ پہنے ہوئے تھیں.

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت سر سے پاؤں تک چھپی ہوئی ہوا کرتی تھی جبکہ اب پاکستانی خواتین نے مغربی ثقافت کو اپنانا شروع کر دیا ہے. عورت مارچ میں ایک پلے کارڈ پر یہ لکھا ہوا دیکھا کہ “اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پر باندھ لو“. ان الفاظ میں قرآن و حدیث کے پردہ کے احکامات کی کھلی مخالفت کی گئی اور حکومت ان سب گستاخیوں کے باوجود بھی ان چند ٹکوں پر ایمان بیچنے والی خواتین کو نہیں روک سکی. اس سال جب عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا تو حسب سابق وہی اسلام مخالف نعرے جوں کے توں موجود تھے مگر حکام بالا کی طرف سے ہرگز نوٹس نہیں لیا گیا. دریافت طلب امر یہ ہے کہ یہ جو خواتین سارا سال عورت مارچ کی تیاری کرتی ہیں. باقاعدہ ٹریننگ سیشن منعقد کرتی ہیں ان کو فنڈز کہاں سے آتے ہیں. پاکستانی عوام اتنی بے وقوف ہرگز نہیں کہ ان لوگوں کو مالی معاونت فراہم کرے.

بہت سے نامور دانشوروں نے یہ بات عوام کے سامنے رکھی ہے کہ مغربی این جی اوز اور ادارے ان خواتین کو فنڈز فراہم کرتے ہیں اور ان لوگوں کا ایجنڈا اسلامی و پاکستانی اقدار کو تباہ کرنا، پاکستانی خاندانی نظام کو ختم کر کے آزادی کے نام پر عورت کو گھر سے باہر لانا ہے. یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عورت تب تک ہی محفوظ ہے جب تک وہ اپنے محرم کی آہنی دیوار کے پیچھے چھپی ہے. جوں ہی وہ مادر پدر آزاد ہوگی پھر ریپ، اغواہ برائے تاوان کے کیسز نکلیں گے. ہم جنس پرستوں کی ہمایت حاصل کرنے کے لئے گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی عورت مارچ میں ہم جنس پرستی کا نشان مخصوص جھنڈا لہرایا گیا جو کہ اس بات کا واضع ثبوت کے کہ یہ فنڈڈ مافیا پاکستان میں مغربی نظام لانا چاہتا ہے. جہاں نہ کسی کو اپنے اصلی باپ کا علم ہوتا ہے اور جہاں شادی سے پہلے ہی خواتین بچے پیدا کرنا شروع کر دیتی ہیں. کیا پاکستان اس قسم کی آزادی کا متحمل ہو سکتا ہے؟ پاکستان میں اسلامی اقدار کی بالادستی قائم کرنے کی بجائے اس ملک کو لبرل ازم کی طرف دھکیلنا کن افراد کا ایجینڈا ہے، اب قوم ان لوگوں کو پہچان چکی ہے. یہ لوگ مغربی ممالک سے خواتین کی تعلیم و تربیت، حقوق نسواں، خوشحال خاندان نامی پراجیکٹس کی مد میں لاکھوں ڈالر فنڈز لیتے ہیں اور وہاں پاکستان کا چہرہ مسخ کر کے دکھاتے ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کی جا سکیں. پھر ان پراجیکٹس کے حاصل وصول کی رپورٹس بنا کر فنڈز دینے والے اداروں کو دکھائی جاتی ہیں. دیکھا جائے تو ہم جنس پرستی جیسا ناسور اللہ کے احکامات سے کھلی جنگ ہے.

مغربی دنیا پاکستانی قوم کو بھی ہم جنس پرستی پر لگا کر نسل کُشی کا کھیل رچانا چاہتی ہے. مگر پاکستان میں موجود حامیانِ اسلام کبھی بھی ان عناصر کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے. اسلام نے مرد کے لئے خواتین کو نکاح کی صورت میں حلال قرار دیا ہے. عورت کے قدموں تلے جنت رکھی ہے. بہن، ماں، بیٹی ہر صورت میں اس کی عزت و تکریم کا درس دیا ہے. یہی وہ لوگ ہیں جن کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ پاکستان سے سزائے موت کو ختم کروایا جائے. سوچنے کی بات یہ ہے کے خواتین کے حقوق کی علمبردار خواتین ریپ کیسز میں مجرمان کی سزائے موت کا مطالبہ نہیں کرتیں. کیوں کہ ان کے منشور میں یہ بات مغربی آقاؤں کی طرف سے شامل کی گئی ہے کہ سزائے موت کو ختم کروایا جائے. جب تک کسی ملک میں سزاؤں کا نفاذ نہیں ہوگا وہاں جرائم کی روک تھام نہیں کی جا سکتی. ایسے ہی خواتین کے جنسی استحصال مثلا ان کو ہراساں کرنا، ریپ و دیگر مکروہ افعال کے مرتک افراد کو جب تک قرار واقع سزائیں نہیں دی جائیں گی تب تک ان قبیع افعال کی روک تھا ناممکنات میں سے ایک ہوگی. بلاشبہ پاکستان کی اکثریت آبادی کی خواتین شعائر اسلام پر عمل پیرا ہونے والی ہیں. بہت قلیل تعداد ان نام نہاد لبرلز و عورت مارچ والوں کی یہاں موجود ہے. حکومت پر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عورت مارچ کے نام پر فحاشی و عریانی کا بازار گرم کرنے والے مغربی ایجنڈا پر کاربند پالتو افراد کو قانون کے شکنجے میں لیا جائے اور ان کے فنڈز کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں تا کہ مملکت خداداد پاکستان کو اس ناسور سے پاک کیا جا سکے.

حصہ
mm
انجینئر محمد ابرار ایم فل سٹرکچرل انجینرنگ کے طالب علم ہیں۔ شعبہ صحافت سے وابسطہ ہیں اور روزنامہ لاہور پوسٹ کے ڈسٹرکٹ رپورٹر ہیں۔ کافی عرصہ سے حالات حاظرہ،مذہبی، سیاسی، سماجی اور اصلاحی موضوعات پر مختلف ویب پیجز پر لکھتے ہیں۔ جسارت کے لئے بطور خاص لکھ رہے پیں۔