عدم اعتماد کا بحران اور عمران خان!

قارئین سے دلی معذرت کیساتھ، پاکستان کا مطلب پاک سرزمین سے تبدیل کرتے ہوئے بحرانوں کی سرزمین رکھ دیا جائے تو پاکستان کی زیادہ صحیح ترجمانی ہوگی۔ چینی کا بحران، آٹے کا بحران، پیٹرول کا بحران، ٹماٹر آلو کا بحران، جان بچانے والی ادویات کا بحران، پانی کا بحران ، بجلی کا بحران، گیس کا بحران، لاقانونیت کا بحران، مہاجرین کے انخلاء کا بحران، یہ وہ چند بحران ہیں جن کا سامنا پاکستانیوں کو گزشتہ کچھ عرصے میں کرنا پڑا ہے۔ جب کے ہمارا سب سے بڑابحران تعلیم کا ہے اگر ہم اس پر کسی بھی طرح سے قابو پالیں اور لوگوں میں شعور کی شمعیں روشن کردیں تو پھر کبھی کوئی بحران پاکستان کا رخ نہیں کرسکے گا ۔

ہمیں یہ بھی مان لینا چاہئے کہ پاکستانی سیاست کرنے والوں کا پاکستان اور پاکستانیوں کی خیر خواہی سے کہیں دور کا بھی کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔ پاکستانی سیاستدان کسی کاروباری پیشے کی طرح سیاست سے منسلک ہوتے ہیں اور زیادہ تر دیکھا جائے تو خاندانی یا موروثی کاروبار کے طور پر ہی سیاست میں کار ہائے نمایاں دیکھا تے چلے جاتے ہیں۔ عوام اور خواص کی تا حال نا ختم ہونے والی تقسیم کی بھی سب سے بڑی یہی طریقہ کار رکاوٹ ہے۔ پاکستان پر یہ بات واضح ہونے میں ایک طویل عرصہ لگا کہ یہاں کے نظم و نسق پر فائز لوگوں کے دلوں میں ملک و قوم کی قدرومنزلت کا کوئی باب ہی نہیں ہے یہ لوگ تو ذاتی انا کی تسکین کیلئے اختیارات کے بے دریغ استعمال کیلئے اور کرسیوں کو ملنے والی مراعات کیلئے یہاں تک پہنچتے ہیں۔ ان کا جینا اور مرنا اقتدار اور اختیار کیلئے ہوتا ہے (یا پھر دوسرے ملکوں میں )دوسری طرف ملک و قوم کی ہر ممکن خدمت پر مامور وطن عزیز کی سرحدوں کے محافظ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہی چلے جارہے ہیں ۔ پاکستان کو بحرانوں میں دھکیلنے والے کون لوگ ہیں آج یہ بات ہر خاص و عام کو سمجھ آچکی ہے۔ مہنگائی کا رونا گانا کرنے والے بھی اچھی طرح سے جان چکے ہیں کہ یہ مہنگائی کوئی ایک دن کا کام نہیں ہے یہ ماضی میں ارباب اقتدار کی عیاشیوں کی مرہون منت ممکن ہوا ہے اور تو اور ان عیاشیوں کی داستانیں بین الاقوامی سطح تک پھیلی ہوئی ہیں۔

یہ پاکستان کا وہ حاکم طبقہ ہے جس نے کبھی زندگی کو اقتدار اور اختیار سے ہٹ کر سوچا ہی نہیں (جسکی زندہ مثال فضل الرحمان صاحب ہیں، ایوان میں نا پہنچ پانے کا اتنا شدید غم ہے کہ ان کا بس نہیں چل رہا کہ انتخابات کی مدت پانچ سال سے کم کرکے ایک سال کر دیں )۔ دنیا میں سیاستدان اپنے اہل خانہ کی کفالت کا واحد ذریعہ اقتدار نہیں ہوتا بلکہ یہ لوگ اپنی اپنی ملازمتوں سے وابسطہ ہوتے ہیں انتخابات میں حصہ لیتے ہیں جیت جاتے ہیں تو ایوان میں اور ہار جاتے ہیں تو اپنے اپنے روزگار پر ہوتے ہیں۔ یعنی خاص و عام کی کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ یہ ایسے ممالک کا تذکرہ ہے جہاں انصاف کو یقینی بنایا جاتا ہے جہاں بنیادی ضروریات کی دستیابی کو یقینی بنایا جاتا ہے جہاں عام آدمی کو بھی ویسی ہی طبی سہولیات میسر ہوتی ہیں جیسی کہ کسی خاص آدمی کو یا یوں کہیں کے صاحب اقتدار کو ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سیاست کو خدمت کے جذبے سے سرانجام دیتے ہیں۔ یہ اپنے ملک کو اپنا گھر سمجھتے ہیں یہ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ دنیا میں اپنے گھر سے اپنے ملک سے اچھی کوئی پناہ گاہ نہیں ہوسکتی اسلئے یہ لوگ ملک کو بہتر سے بہترین بنانے کیلئے دنیا میں اعلی مقام دلانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں ہم نے دیکھا ہے کہ انفرادی و شخصی اہمیت کو اجاگر کرنے کی چاہ میں اقتدار میں آتے ہی قومی خزانے کے منہ اس خاص مقصد کیلئے کھول دیئے جاتے ہیں۔ یہاں تک سنا گیا ہے کہ ایک صاحب اقتدار نے کسی غریب سے ہاتھ ملانا تھا تو اس غریب کو خصوصی طور پر نہلا دھلا کر آگے کھڑا کیا گیا باقی آپ لوگ تقریبا سب کچھ ہی جانتے ہیں۔

تین سال قبل ہونے والے عام انتخابات میں ملی جلی کامیابی سے اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعت، جس نے بائیس سال پاکستانی سیاست کو بدلنے کی کوشش کی اور پاکستان کی عوام کواس سیاسی نظام کی تبدیلی کے لئے بڑی تگ و دو کے بعد تیار کیا۔ یہ بھی ایک تکلیف دہ امر ہے کہ پاکستان کی عوام بہت جلدہی یکسانیت کا شکا رہوجاتی ہے اور اس حققیت کو جدی پشتی سیاستدان تو بخوبی جانتے ہیں لیکن تبدیلی کیلئے کوشاں اس حقیقت کو بدلنے میں تاحال ناکام دیکھائی دئیے ہیں، جسکی وجہ سے شائد عوام کی قلیل تعداد نا چاہتے ہوئے بھی تبدیلی کو تبدیل کرنے لئے پرانے سیاست دانوں کا ساتھ دینے نکل کھڑی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب کو ہٹانے کے جب بیرونی ہربے ناکام ہوچکے تو مخالف جماعتوں کے سربراہان نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی ہے۔ عوام سے صرف اس بات کی گزارش ہے کہ وہ یہ ضرور دیکھیں کے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کی اپنی کیا حیثیت ہے ۔ کیا وہ اس بات کی ضمانت دینگے کہ اقتدار میں آکر جو کچھ پہلے کئی دفعہ کرچکے ہیں اس سے کچھ مختلف کرینگے ۔ اپنے آپ کو ملک کا خیر خواہ کہنے والے پاکستان کی اہمیت اور سربلندی کی جنگ لڑنے والے عمران خان کو اس عمل کی سزا دینا چاہتے ہیں، یہ عمران خان صاحب کو آمریکہ کو سپر پاور کی مسند سے ہٹانے کیلئے روس کا ساتھ دینے کی وجہ سے ہٹانا چاہتے ہیں ، یہ عمران خان کو کشمیر کیلئے آواز نا اٹھانے والوں کو اس بات کی تنبیہ کرنے کی وجہ سے ہٹانا چاہتے ہیں کہ وہ جب کشمیر کے خلاف بھارتی مظالم پر نہیں بول سکتے تو ہ میں نا بتائیں کے یوکرین کے معاملے پر بولنا ہے یا نہیں ۔ یہ باتیں اس بات کی گواہی ہیں کہ ملک ِ خداداد پاکستان کا خیر خواہ حقیقی معنوں میں کون ہیں۔ فیصلے کا وقت یہ لوگ خود لے آئیں ہیں اب وہ فیصلہ آئے گا کے تاریخ ٰیاد رکھے گی ۔ ان شاء اللہ

تحریک انصاف کے رہنماءوں کو اس بات کاخیال ضرور آنا چاہئے کہ انہوں نے پچیس سال جس شخص کا ساتھ دیا ہے، جس نظریے کا ساتھ دیا ہے، جن لوگوں سے اور انکے ناپاک عزائم سے پاکستان کو نجات دینے کا عہد کیا تھا، کیا اسے اپنی ذاتی مفاد کی خاطر نظر انداز کردیا جائے گا۔ تحریک انصاف اور اسکے نظریاتی کارکنوں کی آزمائش کا وقت ہے کہ وہ اپنے منتخب شدہ نمائندوں کو یہ باور کرائیں کہ اپنی جماعت کے داخلی معاملات مل بیٹھ کر حل کرلینگے لیکن حکومت کو گرنے نہیں دینگے بلکہ اس مخصوص ٹولے کو جو برس ہا برس سے ملک و قوم کو لوٹتے آئے ہیں منہ کے بل گرائیں گے۔ یوں تو پاکستان کبھی بھی بحرانوں سے باہر نہیں نکل سکا ہے لیکن اب کوئی ہے جو پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے کوششیں کر رہا ہے تو اب اسے ہی بحران کی نظر کرنے کی اندرونی اور بیرونی قوتیں ایک ہوچکی ہے لیکن ہمیں بہت اچھی طرح پتہ ہے کہ ایک ایسی طاقت ہے جو سب طاقتوں پر بھاری ہے اگر اسکی حمایت ہے تو پھر کوئی بھی وزیر اعظم عمران خان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا ہے، اور یہ بھی دکھائے گا کہ اعتماد میں اتنے ووٹ پڑ جائینگے جتنے کے وزیراعظم بننے کے وقت بھی نہیں پڑے گے ۔ اللہ رب العزت سے دعا گو ہیں جو دلوں کے حال خوب جانتا ہے کہ ملک کو اب ایسے کسی بحران کی نظر نہیں کیجئے گا کہ جس کا ملک محتمل نہیں ہوسکتا بیشک آپ بہترین اسباب پیدا کرنے والے ہیں ۔ دنیا میں آج پاکستان کی جتنی گردان ہے شائد ہی پاکستان کی تاریخ میں کبھی ہوئی ہو اور اسکی وجہ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جن کا خواب ہے کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست یعنی مدینہ کی طرز کی ریاست بنایا جائے اور اسکے لئے بہت ضروری ہے کہ صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا جائے اور وقت کو وقت دیا جائے کہ وہ اس حقیقت کو ثابت کرے ، عمران خان ہی رہنما ہے جو پاکستان کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ بحال کراسکتے ہیں ۔ یہاں ایسا بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ قدرت حالات و واقعات کو کسی دوسرے نظام کی طرف تو نہیں دھکیل رہی کہ کل صبح جب ہم اللہ کے حکم سے اٹھیں تو پتہ چلے کے پارلیمانی نظام کا بستر گول کردیا گیاہے اور ملک میں صدارتی نظام قائم کیا جاچکا ہے یا پھر اس سے پیشتر کسی قسم کی عارضی ہنگامی صورتحال نافذ ہے ۔ ملک اس وقت تاریخ کی سب سے بڑی تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے اورآنے والا ہر دن پاکستان کیلئے اہم ترین دن ثابت ہونے والا ہے ۔

آج گھبرانے والوں کی ایک مختصر سی فہرست ہے جن پر عمران خان صاحب پر عدم اعتماد کیلئے ووٹ دینے کا بوجھ ڈالا جارہا ہے، لگتا تو ایسا ہے کہ گنتی کے ووٹ عدم اعتماد میں ڈالیں جائینگے اور وہ گنتی کے ووٹ انگلیوں پر گنے جائینگے ۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔