خواتین کے حقوق اور اسلامی نظام

ہم آج کے معاشرے کو روشن خیال اور ماڈرن دور کے نام سے پکارنا پسند کرتے ہیں اور جو کوئی بھی اسلامی نظام کی بات کرتا ہے ہم کہتے ہیں کے یہ جاہلوں والی باتیں ہیں ہم اکیسوی صدی میں جی رہے ہیں روشن خیالی اپنانی چاہیئے اور تیزی سے میڈیا کے ذریعے اس روشن خیالی کے پیغام کو عام کیا گیا، لوگوں کے دماغوں میں بھر دیا۔ اب جبکہ اس روشن خیالی کی آگ نے پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے لیا اور اس کے اثرات نظر آنے لگے تو تو اس کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

میانوالی میں ہونے والا واقع باپ نے بیٹی کی پیدائش پر نومولود کو مار ڈالا اب اس واقعہ پر بھی ان نام نہاد خواتین کے حقوق کے علمبرداروں نے اچھلنا شروع کردیا جبکہ یہ واقعہ تو ہے ہی ان روشن خیالوں کے دور جاہلیت کی دی گئی تعلیم کا نتیجہ کیونکہ اسلام کی آمد سے قبل بھی یہی سب کچھ ہوا کرتا تھا کسی بیٹی کو زندہ رہنے کی اجازت نہیں تھی اور اگر کچھ بچ جاتیں تو باندی غلام سے بڑھ کر کچھ نا تھیں پھر اسلام نے ہی عورت کو حقوق بھی دیئے زندہ رہنے کا حق بھی دیا اور ماں جیسا مقام دیا جس کے پیروں کے نیچے جنت رکھی، بیوی کا مقام دیا جس کو شوہر کی جائیداد کے ساتھ ساتھ دل کا بھی حصہ دیا اور وہ مرد جو پہلے عورت کو صرف اپنی حوس کے لیئے استعمال کرتے تھے وہ شوہر کے رشتے کے ساتھ بیویوں کے ذمہ دار اور محافظ بنادی گئی پھر باپ اور بھائی کا محبت اور ادب و احترام بھرا رشتہ بھی اس اسلام کی ہی بدولت عورت کو ملا جبکہ پہلے یہی باپ بیٹوں کو زندہ دفنا دیتے تھے۔

پھر کسی کم عقلی ہے یہ آج اگر کوئی عورت کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے تو اسے اسلام سے جوڑ دیا جاتا ہے جبکہ یہ عورتوں کے حقوق کے بڑھ چڑھ کر آواز لگانے والی مغربی تہذیب ہی ہے جہاں روزانہ کئی عورتوں کا ریپ ہوجاتا ہے جہاں عورت کو ماں کا مقام حاصل ہے نا ہی بیوی کا جبکہ شادی ہی نہیں کی جاتی اور ہو بھی جائے تو زیادہ عرصہ چلنا مشکل ہوتاہے ماں باپ کو اولڈ ہاوس میں ڈال دینا کوئی معیوب بات نہیں جہاں بیٹی باپ سے اور بہن بھائی سے محفوظ نہیں۔

لیکن اللہ کا کرم ہے کے پاکستان میں آج بھی بڑی تعداد ایسی ہے جو جھوٹے نعروں میں نہیں آتی اور اسلامی قوانين کے قائل ہے آج جبکہ دنیا میں جھوٹے حقوق کے نعروں کی گونج ہے تو یہاں کی عورت، محفوظ عورت، مضبوط خاندان، مستحکم معاشرہ کی آواز بلند کررہی ہے اور یہی ہماری تہذیب کی بنیاد ہے ۔