تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے

ماہ مارچ کے آغاز سے ہی ہر طرف نام نہاد حقوق نسواں کی علم بردارتنظیمیں سرگرم عمل نظر آتی ہیں۔ گو کہ عالمی یوم خواتین ہر سال 8 مارچ کو منایا جاتا ہے اور اس حوالے سے معاشرے میں متفرق آراء پائی جاتی ہیں ۔ خواتین کا ایک طبقہ خود کو” فیمنسٹ ” یعنی حقوق نسواں کا مجاہد و محافظ سمجھتا ہے۔ جبکہ حقیقی طور پر یہی وہ طبقہ ہے جو معاشرے کو خواتین کے بنیادی حقوق کے متعلق گمراہ کر کے اپنے ذاتی مطالبات کو معاشرتی مہم بنانے پر تلا ہوا ہے۔ ان فیمنسٹ خواتین کی اکثریت کا تعلق شوبز انڈسٹری اور اور نامور شعبوں سے ہے اور یہ خواتین ماڈرنزم کی علمبردار اور پر آسائش زندگی کی مالک ہیں لہذا یہ خواتین ہمارے معاشرے کی خواتین کے حقوق سے حقیقی طور پر بالکل نہ بلد ہیں۔

چند خواتین کا ایک گروہ اپنے نادیدہ عزائم لیے اپنے منشور میں مرد و زن کی برابری کی بات کرتی ہیں مگر یہ خواتین حقیقتاً خود خواتین کے مابین ہی طبقاتی فرق کو مٹانے پر راضی نہیں ہیں اور تعصب پسندی کا شکار ہیں۔ ہم ان فیمنسٹ خواتین کو ملالہ یوسفزئی کو سپورٹ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر حال ہی میں “کرناٹک” میں رونما ہونے والا واقعہ جہاں ایک شیر دل لڑکی “مسکان خان” نے اپنےحجاب کے تحفظ کے لیے نعرہ حق بلند کیا تو فیمینزم کا علمبردار یہ گروہ خاموش بیٹھا رہا۔ نہ کوئی ستائش سامنے آئی نہ پذیرآئی اور حوصلہ افزائی۔

دراصل یہ ہم سب کے لئے سوچنے اور سمجھنے کا مقام ہے کہ جو خواتین بات بات پر برابری کی بات کرتی ہے وہ پھر برقع، نقاب اور حجاب کی حمایت میں کبھی آواز اٹھاتی نظر کیوں نہ آئیں۔ کیا یہ مسلم عورت کے لباس کا جزو نہیں ہے؟ کیا ہمارے معاشرے کی خواتین “میرا جسم میری مرضی” کے تحت اپنی مرضی سے باحجاب نہیں ہو سکتیں ؟ اگر ہو سکتی ہیں تو پھر ہمیں عورت مارچ میں کسی پلے کارڈ پر عورت کے حجاب کے لیے کبھی کوئی “سلوگن” نظر کیوں نہیں آیا ؟ ۔۔۔۔مکمل سوچئے ؟۔۔۔۔