معاشرے میں اخلاقی بحران کا ذمہ دار کون ؟

معاشرہ افراد کے مجموعہ کا نام ہے اور ہر فرد اپنے معاشرے کا ذمہ دار ہے کہ وہ اسے پاک اور صاف رکھے اور اس چیز کی فکر کرے کہ کیسے وہ اس سے گندی اور بری چیزیں نکال سکتا ہے۔ جب ہر فرد کو معاشرے کی اصلاح اور سدھار کی فکر ہوگی تو ہی معاشرے کے سبھی افراد ایک پاکیزہ اور صاف ستھرے سانچے میں ڈھلیں گے۔

ہمارے معاشرے میں شدید اخلاقی بحران پایا جاتا ہے جسکی وجہ سے لوگ بے راہ روی کا شکار ہو چکے ہیں جنہوں نے حلال اور حرام، نیکی اور بدی کو پرکھنا چھوڑ دیاہے۔ کیا ہمیں اسکے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے؟ یہ بگاڑ جو ہمارے معاشرے میں پیدا ہو رہا ہے آخر کس وجہ سے ہے؟ کیا ہم اپنا فرض پورا کر رہے ہیں؟ اگر غور کیا جائے تو ہمیں اسکا جواب ملے گا کہ نہیں ہم اپنا حق ادا نہیں کر رہے۔اسلام نے انسان پر صرف اپنی اصلاح کی ذمہ داری عائد نہیں کی بلکہ اس کے گھر والوں کی اس کی اولاد اور عزیز و اقارب کی اصلاح کی ذمہ داری بھی اسی پر عائد کی ہے۔

جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہمارے معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل بگڑ رہی ہے اور اس بگاڑ کے ذمہ دار صرف جدید ٹیکنالوجی یامیڈیا نہیں بلکہ ہم سب بھی ہیں۔ ہمارا پسندیدہ مشغلہ یہی ہے کہ ہم دوسروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور اپنا سارا کیا دھرا کسی دوسرے کے کاندھے پہ ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ ہم ٹیکنالوجی، جدت اور ماحول کو برا بھلا کہہ تو ڈالتے ہیں مگر خود اس کی بہتری کیلئے کوئی اقدام نہیں کرتے۔ ہم دوسروں کے حق میں تو جج اور خود کے بارے میں بہترین وکیل ثابت ہوتے ہیں۔ ہم اپنے دفاع کیلئے ہزاروں تاویلیں تیار رکھتے ہیں۔ سیکڑوں دلائل ہمارے دماغ میں ہوتے ہیں خود کو بہترین ثابت کرنے کیلئے اور اسی کے زعم میں مبتلا ہو کر دوسروں پر ہم جھٹ سے کافر اور شرپسند ہونے کا فتویٰ ٹھونس دیتے ہیں۔

ہمارے نزدیک دوسروں کو نصیحت کرنے سے ہمارا فرض پورا ہو جاتا ہے۔ یہی صرف وہ کام ہے جو ہم پوری جانفشانی کے ساتھ معاشرے کی اصلاح کیلئے کر رہے ہیں، لیکن ہم یہ بھول گئے ہیں کہ قول سے زیادہ عمل میں طاقت ہے۔ اور معاشرے کی اصلاح تب تک ممکن ہی نہیں ہے جب تک ہم اسے اپنی ذات سے شروع نہ کردیں کیونکہ لوگوں کی نظر آپ کے قول سے ذیادہ آپ کے عمل پر ہوتی ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ جب تک آپ خود کو بہتر نہیں کرتے تب تک آپ کسی کو بھی راہِ راست پر نہیں لا سکتے اگر ہم اپنی ذات کو بہتر بناسکے تو یقین کریں پورا معاشرہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا فرمان باری تعالیٰ ہے کہ: “اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ”

اس کا مفہوم صاف ہے کہ پہلے خود کو بچاؤ اور پھر دوسروں کو تبلیغ کرو اور یہی وہ چیز ہے جسمیں ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے اندر جھانکنا ہوگا کہ جو غلطی دوسرے کر رہے ہیں کیا وہ ہمارے اندر بھی ہے؟ اگر خدانخواستہ ہمارے اندر ہے تو پہلے اسکی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے نا کہ دوسروں کو لعن طعن کریں۔ پہلے اس غلطی کو تو دور کریں جو ہم خود کر رہے ہیں۔ اگر کوئی غلطی کر رہا ہے تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ پہلے اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ کہیں یہی سب کچھ ہم میں تو نہیں۔ معاشرے کی اصلاح کیلئے ہمیں سمجھداری، دانشمندی، بردباری کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور پیغمبرانہ اُصولوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا تب جا کر ہم پاکیزہ معاشرے کے سانچے میں ڈھل سکیں گے۔

ہمارا مذہب اسلام برحق ہے اور اسلام نے مسلمانوں کو اس بات کی تعلیم دی ہے کہ وہ اپنے اردگرد کا جائزہ لیں اور جو خرابیاں آ رہی ہیں ان کی اصلاح کی فکر کریں۔ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو ایک مکمل نظام حیات ہے جس میں ہر طبقے کے متعلق ہدایات موجود ہیں اور اس فانی دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کے متعلق اسلام میں کوئی رہنمائی نہ ہو۔ اور ہمارے اس دنیا کو چھوڑ جانے کے بعد قیامت آنی ہے اور ہمیں سزا و جزا کے مراحل پیش آنے ہیں تو ہمیں اپنی اولاد کو بھی اس سزا و جزا کیلئے تیار کرنا ہو گا۔ ہمیں چاہیے ان کیلئے تعلیم کا بندوبست کریں اور بچپن سے ان کے ذہن کی تربیت کریں تاکہ ان کے دلوں میں جزبہ ایمانی اور گناہوں سے نفرت پیدا ہو۔ ہمیں اپنے گھروں میں تلاوت قرآن پاک کا اہتمام کرنا چاہیے اور گھر میں ایسا وقت ضرور نکالنا چاہیے جس میں سارے گھر والے اسلام کے بارے میں بات چیت کریں اور کچھ سیکھیں۔ ہمیں اپنے اعمال درست کرنے چاہیے تاکہ اگر ہماری اولادیں انکی پیروی کریں تو ان کو فخر ہو۔

بس! ہمیں صرف اتنا کرنا ہے کہ اپنے حقیقی مالک سے اپنا تعلق استوار کرنا ہے اور اپنی ہر خواہش کو رب تعالیٰ کے حکم کے سامنے قربان کرنا ہے۔ دین محمدی سے دوری، پیغمبرانہ اُصولوں سے انحراف ہی کی وجہ سے ہمارا معاشرہ اصلاح کی شاہراہ پر نہیں چل رہا، اگر ہم خود کو دین اسلام، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قائم کردہ اُصولوں سے منسلک کر لیں اور “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” کے اصول کو پوری ایمانداری اپنا لیں تو ہم ضرور ایک پاکیزہ معاشرہ تعمیر کر لیں گے۔ ہمیں ہر وقت اللہ تعالٰی کے حضور دعائیں کرنی چاہیئے کہ وہ ہمارے اہل و عیال اور عزیز و اقارب کو صراط مستقیم پر لے آئے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔