گھرجنت یاجہنم، عورت کےہاتھ میں!

مروہ ایک گاؤں میں چاربہن بھائیوں اوراپنےوالدکےہمراہ زندگی بسرکررہی تھی کہ اس کی قسمت نےپلٹاکھایااورشادی کےبعدشہرمیں ایساگھرملاجہاں کسی قسم کی تنگی یامشکل نہ تھی ہرقسم کی سہولت گھرمیں موجودتھی۔ اس کاشوہراس کوہرایک سےذیادہ چاہنےوالاتھاپس شادی کےایک سال بعد اللہ تعالیٰ خوشبوؤں سےمعطرپھول بیٹی کی صورت میں اگایا لیکن اسکی زندگی بڑی مختصرکہ دودن بعدوہ کھلاہواپھول مرجھاگیا۔ ساراگھرغمزدہ ہوگیالیکن اللہ کی رحمت سےناامیدی مومن کاشعارنہیں وہ دےکرلےسکتاہےتواوربھی دےسکتاہے۔

اگلےسال پھرخوشیاں اس گھرکی زینت بنیں کہ اللہ نےایک بہت ہی خوبصورت سابیٹا دیا دادی نےاپنےپوتےکانام نبیءِرحمتﷺکےنام پراحمدرکھا۔ پورےگھرمیں ایک بچہ سب کی محنتوں اورچاہتوں کاتنہاوارث تھا۔ بڑےپرسکون اورخوشیوں کےحسین بندھن میں یہ گھرانہ زندگی کےلمحات بسرکررہاتھا۔ مروہ اپنےآبائی خاندان میں لبرل قسم کی زندگی بسرکررہی تھی یعنی اس کےنزدیک عورت کابلاضرورت سیروتفریح کیلیےاپنےگھرسےاکیلےچلےجانےمیں کوئی مضائقہ نہیں اورپردہ کرنےکوانتہائی ناپسندکرتی تھی ۔ لیکن اس کےسسرال والےان حدودوقیودکےبہت پابندتھے۔ اس کےشوہربیرونِ شہرمیں کام کرتےتھےایک ماہ بعدوہ ایک ہفتہ چھٹی گزارنےاپنےگھرآتےتھے۔ پس مروہ نےیہ فیصلہ کرلیاتھاکہ وہ جوائنٹ فیملی میں نہیں بلکہ الگ رہےگی۔

اس نےاپنےشوہرکےسامنےاس خواہش کورکھاتوشفیق شوہرنےبڑےپیارسےسمجھایا۔ “دیکھومروہ یہاں تم فیملی میں سب کےساتھ محفوظ اورہمارےبیٹےکی وجہ سےسب ہی مسرورہیں توتمہیں اس گھرمیں کہیں کوئی مسئلہ یےتووہ بتادومیں حل کردیتاہوں لیکن تم سب کےساتھ رہو، مروہ کہاں ماننےوالی۔ کہنےلگی پھرمجھےاپنےساتھ لےجائیں۔ تواس کےشوہرنےپھربڑےعاجزانہ اندازمیں سمجھایا “مروہ جہاں میں کام کرتاہوں ہماری رہائش گاہ مردوں کےساتھ ہےسب لوگ اکٹھےرہتےہیں ۔ ہاں اگرمیں الگ گھرلیتاہوں توہمارےاخراجات ذیادہ ہوجائیں گےیہاں توباباکماتےہیں سب اکٹھےرہتےہیں ، مروہ بولی ٹھیک ہےپھراب میں کوئی غلط قدم ہی اٹھاؤں گی۔ اس کےشوہرجانےکی تیاریوں میں مصروف تھےاس کی بات پرکچھ خاص توجہ نہ دےسکے۔ جب اگلی بارچھٹی واپس آئے تومروہ بولی مجھےاپنےوالدین سےملناہےلھٰذامجھےگاؤں چھوڑکرآئیں۔ بڑی محبتوں سےساتھ پیکنگ کرواکراس کےشوہراس کواوراپنےبچےکووالدین کےگھرچھوڑنےگۓ۔ انھیں کیاسمجھ تھاکہ وہ کس ارادےسےجارہی ہے۔ پس وہ توجاکرطویل مدت کیلیےبیٹھ گئ یہاں تک کہ 5ماہ گزرگئے۔

وقتاًفوقتاًرابطہ کرتےتواس کا ریسپانس نفی میں ہی ہوتااوروہ بس نہ آنےپرہی بضدتھی۔ اگراس کےشوہرکواس کےکلمات یادہوتےتب تووہ کچھ کرہی لیتےلیکن ان کوتوکچھ یادہی نہیں تھا۔ جب بھی بات ہوتی مروہ یہی کہتی کہ مجھےوہاں نہیں رہنامیرامطالبہ بس ایک ہی ہےوہ ہےطلاق۔ اورنہ ہی وہ احمد سےاس کےباباکی بات کرواتی۔ وہ گھرآتےاوراپنی چھٹی گزارکرچلےجاتےاگرچہ انکی ماں جیسادرخت گھرمیں موجودتھامگرجوکشش اپنی اولاداوراھلیہ میں ہوتی ماں اس کوپورانہیں کرسکتی۔ پس ایک دن شوہرنےپھررابطہ کیااوربڑےپیارسےپوچھامروہ تم کیاچاہتی ہو؟ مروہ بولی طلاق۔ مردکےبھی احساسات اورجذبات اوربرداشت کی حدہوتی ہے۔ طلاق کی تکرار سن سن کرکان اکتاگۓآج شایدیوں ہی لکھاتھا۔ وہ جتنی رعایت برتتےتھےصرف اپنےبیٹےکودیکھتےتھے لیکن آج جواباًبولےمروہ سنوغورسےسنو۔ میں تمہیں طلاق دیتاہوں میں تمہیں طلاق دیتاہوں میں تمہیں طلاق دیتاہوں اوررابطہ منقطع کردیا۔ یوں ایک عورت کی بدولت یہ ہنستابستاگھراجڑکررہ گیا۔ جس گھرمیں رونقوں کاسبب ہی احمدکاوجودتھاوہ گھرانہ بےرونق ہوگیا۔