حکومتی صحت کارڈ منصوبہ کرپشن کی زد میں

صحت کارڈ کے نام پر قومی خزانے کو اربوں روپے کا چونا لگایا جانے لگا پی ٹی آئی کی گورنمنٹ میں جس انداز سے قومی خزانے کو تباہ کیا جا رہا ہے اس کا اندازہ ان کے جانے کے بعد ہو گا کیونکہ ابھی ان کو ”کچھ خفیہ” لوگوں کی سرپرستی حاصل ہے ان پر نیب ہاتھ ڈال سکتی ہے نا FIA بلکہ ان کے خلاف لکھنے والوں کو الٹا پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے جیسے ہی حکومت نے صحت کارڈ اسکیم کے منصوبے کا اجراء کیا تو بہت سارے ابہام تب ہی پیدا ہو گے کہ اسکی تقسیم کار کے بعد آیا عوام اس فائدہ اٹھا بھی سکے گی کہ نہیں کیا کھال اتارنے والے پرائیویٹ ہسپتال مریضوں کے علاج معالجے میں مفت علاج کی فراہمی کو ممکن بنا سکیں گے؟ مصدقہ ذرائع کے مطابق علاج سے زیادہ سیاسی ڈرامہ اور چند گنے چنے امرا کو نوازنے کی بہیمانہ کوشش کی جا رہی ہے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار پر جب پیسے لگانے کی بات آتی ہے تو پنجاب حکومت کے گلے شکوے ہی اس قدر تھے کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں۔

اگر یہی صحت کارڈ کے 300 سے 400 سو ارب روپے کے فنڈز پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں پر لگاتے ان میں بہتری لاتے ہر بڑے ضلع یا نئے شہروں میں نئے ہسپتال بنائے جاتے تو پنجاب کی کایا ہی پلٹ جاتی، لیکن جب کوئی بھی حکومت اپنے دور میں سیاسی منصوبہ بناتی ہے اور ہمارے ٹیکس کے پیسے ڈبو کر اپنی ساکھ بنانے کی کوشش کرتی ہے تو پھر عوام کو ریلیف کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کیا جاتا ہے یہ PTI کا صحت کارڈ والا ڈرامہ ہی دیکھ لیں۔ اندر کی باتیں لوگوں کو نہیں پتا کیسے عوام کو چونا لگایا جاتا ہے مدینے کی ریاست کے دعوے دار ٹیکس کے پیسے پرائیوٹ ہسپتالوں کے مالکان کو دے کر انہیں ارب پتی بنا رہے ہیں۔

انہوں نے پورے پنجاب میں 525 ہسپتالوں میں سے 80 فیصد پرائیوٹ ہسپتالوں کو صحت کارڈ اسکیم کے تحت رجسٹرڈ کیا ہے اور اربوں روپے قومی خزانے سے ان کے اکاؤنٹ میں علاج کے نام پر منتقل ہو رہے ہیں۔علاج والا ڈرامہ دیکھنا ہو تو پرائیوٹ ہسپتالوں میں مریضوں کو پورا چونا لگایا جا رہا ہے۔ ان کو ہسپتال کے مالکان صرف ان بیماریوں کے لئے داخل کرتے ہیں جس میں انہیں منافع ملتا ہو۔

مثلاً یہ ہسپتال گائنی کے مریضوں کو نہیں لیتے کہ اس میں ڈاکٹر کا شیئر صرف 20 ہزار سے بھی کم ہے اور کارڈیک کے مریضوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں کہ اس میں ڈاکٹر کا شیئر 80 ہزار تک ہے دوسری جانب سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹرز کو صحت کارڈ پر جو رقم دی جا رہی ہے اتنی وہ ایک دن کی پرائیویٹ پریکٹس میں کما لیتے ہیں یہ صحت کارڈ ایک بڑا اسکینڈل پیدا کرے گا جو ایک تاریخ رقم کر سکتا ہے مثال کے طور پر اگر پرائیوٹ ہسپتالوں میں دل کے مریضوں کے صحت کارڈ سے بھاری رقوم کاٹ کر انہیں انتہائی گھٹیا کوالٹی کے stents ڈالے جا رہے ہیں اور disposable استعمال کرنے کی بجاے resterlized سامان سے انکا آپریشن کیا جاتا ہے اور تو اور مریضوں کے آپریشن کی یا علاج کی تفصیلات فراہم نہیں کی جاتیں کہ کتنے اخراجات کس مد میں ڈاکٹر کے نام کی بجائے پرائیوٹ ہسپتال کے نام پر بل بھیجا جاتا ہے تاکہ انکی بدنیتی اور کرپشن کو چھپایا جا سکے پھر سینئیر ڈاکٹرز نے جونئیر ڈاکٹرز کی ٹیمیں بنا رکھی ہیں جو بڑے بڑے سنجیدہ نوعیت کے آپریشن کرکے تجربے کر رہے ہیں جبکہ فیس پروفیسروں اور ہسپتال کے مالکان کی جیب میں جاتی ہے مریض کو اندھیرے میں رکھا جاتا ہے اور معاملہ صرف انشورنس کمپنی اور ہسپتال مافیا کے درمیان رکھا جاتا ہے۔