عورت مارچ اورخاندانی نظام

 

عورت مارچ پر وفاقی وزیر براۓ مذہبی امور نور الحق قادری صاحب نے ایک خط وزیراعظم عمران خان کو لکھا۔ خط کے مندرجات سے پتا چلا کہ انھوں نے استدعا کی کہ عورت مارچ کو روک دیا جاۓ کیونکہ یہ پاکستان کے معاشرتی اقدار کے منافی ایکٹیویٹی ھے اس سے مذہبی اشتعال پھیلنے کا خدشہ ھے۔

اس خط کے مندرجات کے خلاف عورت مارچ کی انتظامیہ نے بڑا شور و غوغا کیا۔ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس خط کیخلاف طوفان کھڑا کیا گیا اور توقع کے عین مطابق پی ٹی آئ حکومت کے اندر سے بھی اس خط کیخلاف آوازیں اٹھنے لگیں تو مجبوراََ وفاقی وزیر کو یہ کہنا پڑا کہ وہ عورت مارچ کے خلاف نہیں بلکہ انھیں عورت مارچ میں لگنے والے نعروں پر تحفظات ہیں اس لیے انھوں نے خط لکھا۔ بدقسمتی سے اس خط کا کوئ خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا۔

بہرحال ! ہر سال مارچ کی 8 تاریخ کو عالمی یوم خواتین منایا جاتا ھے لیکن ہر ذی شعور فرد کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ھے کہ آخر وہ کون سا حق ھے جو اسلام اور پاکستان کے آئین نے ان عورتوں کو نہیں دلوایا جس بناہ پر ان کو یہ عالمی خواتین ڈے پاکستان میں اتنی زور و شور سے منانا پڑ رہا ھے۔ اگر ہم اس “مخصوص دن” عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اس کی تاریخ کو دیکھیں تو پتا چلتا ھےکہ 1907 میں امریکہ کی ریاست نیو یارک میں قائم ایک فیکٹری میں ملازمین کی قلیل تنخواہ کے خلاف ایک مظاہرہ اس “عالمی یوم خواتین” کی بنیاد بنا۔اس مظاہرے میں ایک قرار داد پاس ھوئ جس میں کہا گیا کہ ہر سال مارچ کی 8 تاریخ کو عالمی یوم خواتین کے طور پر منایا جاۓ گا۔اسی قرار داد کو 1977 میں اقوام متحدہ نے پاس کرکے اسے عالمی قانون کی حیثیت دے دی۔

ایک لمبے عرصے تک یہ مارچ دنیا بھر میں منایا جاتا رہا ھے لیکن کبھی بھی مذہبی ، لبرل اور سیکولر طبقہ اس مارچ کے اغراض و مقاصد کیخلاف میدان میں نہیں آیا۔ مارچ ،احتجاج اور مظاہرے ہوتے رھے عورتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے استحصالی سلوک پر آوازیں بلند ہوتی رھیں اور میڈیا بھی اسے ہائ لائٹ کرتا رہا۔ دنیا کی مختلف حکومتیں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اپنے اپنے ملکی قوانین کے تحت عملدرآمد کی یقین دہانیاں کراتی رھیں اور یہ سلسلہ ایک طویل عرصے تک ایسے ہی چلتا رہا لہزا 8 مارچ کا دن آتا رہا اور گزرتا رہا۔

عوام کو اس میں کوئ خاص دلچسپی لیتے نہیں دیکھا گیا۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس عالمی یوم خواتین ڈے کے موقع پر کبھی بھی غیر اسلامی اور غیر اخلاقی نعرے بلند ہوتے نہیں دیکھے گئے۔ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ہمیشہ مغربی ممالک بڑے سرگرم رھے ہیں۔ اس کی بڑی اور بنیادی وجہ وہاں پر عورتوں کی حقوق اور برابری کے حوالے سے شدید ترین استحصال پایا جاتا ھے یہی وجہ ھے کہ ان ممالک میں ان کے اپنے اداروں کیطرف سے عورتوں کے حقوق پر ہونے والے سرویز ، اس کے نتائج اور وجوہات نے ان ممالک کی نام نہاد معاشرتی اقدار کا بھیانک نقشہ کھینچا اور معاشرتی غرور و تکبر کا جنازہ نکال دیا۔

مغربی دنیا کی چکا چوند، بے لگام زندگی، نام نہاد ترقی اور مادر پدر آزادی نے عورت کو حقوق کے نام پر کھلونا بنادیا۔ خاندانی نظام کو تہس نہس کردیا۔ خود کشیوں کا تناسب ناجائز بچوں کی بڑھتی شرح دیکھی جاۓ تو دل دھل جائیں انہی ترقی یافتہ ممالک میں آج عورت سب سے زیادہ مظلوم اور بے یارو مدد گار ھے۔

اقبال نے انہی کیلئے کہا تھا کہ

جو شاخ نازک ہے آشیانہ بنے گا وہ ناپائیدار ھوگا۔

پاکستان میں بدقسمتی سے گزشتہ تین چار سال سے اس عالمی یوم خواتین کے موقع پر عورت مارچ کیا جاتا ھے،عورت مارچ میں ایسے نعرے لگائے اور پلے کارڈز اور بینرز آویزاں کیے جاتے ہیں جس سے بلا شبہ یہ تاثر گہرہ ہو رہا ھے کہ یہ لبرل اور سیکولر طبقہ اسی مغربی مادر پدر آزادی کیطرف قوم کو گامزن کرنا چاہتا ھے جہاں عورت کو ایک شو پیس کھلونا بنادیا گیا ھے۔

ایسے نعرے۔ پلے کارڈز اور بینرز آویزاں کیے جانے لگے ہیں جس سے دین اسلام، پاکستانی قومیت، عزت، غیرت، خاندانی نظام، شناخت اور شعار اسلام کا مزاق اڑایا جانے کا عنصر نمایاں ھو تا ھے۔ دلچسپ بات یہ ھے کہ اس مارچ اور بالخصوص اس میں لگنے والے نعروں کے خلاف لبرل اور ماڈرن خواتین نے بھی مختلف اخبارات اور سوشل میڈیا پر مذمتی بیانات اور کالم لکھے ہیں۔ خاص ذہن سازی اور متنازعہ نعروں کی آڑ میں یہ نام نہاد این جی اوز جن کی تمام ایکٹیویٹیز غیر ملکی فنڈ پر ہوتی ھے۔

آج عورتوں کے حقوق کے نام پر ہمارے خاندانی نظام پر حملہ اور ہونا چاہتی ہیں اور اس معاشرے کو اسی نہج پر پہنچانا چاہتی ہیں جہاں اتنی گھٹن ہو کہ نتیجہ نور مقدم جیسا نکلے۔