کیا ہم مجرم ہیں ؟

یہ حقیقت ہے کہ موجودہ ہندستان اقلیت کے لیے جہنم بن چکا ہے بلکہ ہندوتو ا کی اس تحریک نے خود نچلی ذات کے ہندوؤں کے لیے بھی اس ملک کو جہنم بنادیا ہے، مودی کی اس حکومت کے اقدامات نے ہندستان کے چہرے سے سیکولر ازم کے نقاب کو نوچ کر اس کا بھیانک چہرہ جو صرف اور صرف ایک دہشت گرد ہندوتوا کے پجاری کا ہے، دنیا کے سامنے واضح کردیا ہے۔

وہ چاہے گھوڑوں پر سوار نچلی ذات کے ہندو دولہاؤں کی لاشیں ہوں یا گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں مسلمان مردوں اور عورتوں کی جلی ہوئی لاشیں، سکھوں کے گولڈن ٹیمل پر فوج کشی ہویا مسیحیوں پر کیا جانے والا ظلم ہو یا چناروں کے دیس کشمیر کی انسانی جیل ہو اور جس میں روا رکھے جانے والے انسانیت سوز مظالم ہوں حقیقت یہ ہے کہ سیکولر آئین رکھنے والا ہندستان اپنے ہی آئین پر ہر روز تھوکتاہے اور اس کو پامال کرتاہے۔

تقسیم ہند کے اوّل دن سے ہندوستان اپنے آپ کو ایک سیکولر ملک باور کرانے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ اس تحریک نے ہندستان کو ایک مکمل ہندو ریاست بنانے کی جدوجہد شروع کررکھی ہے جس میں غیر ہندو کی کوئی گنجایش نہیں ہے اس پوری تحریک کا قائد مودی ہے۔ ایک طرف تو یہ صورت حال ہے لیکن دوسری طرف پاکستان جس کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی گئی تھی اگر قیام پاکستان کی جدوجہد میں اسلام کا نام نہ ہوتا تو ایک قائد اعظم کیا ایک سو قائد اعظم بھی برصغیر کے مسلمانوں کو قیام پاکستان کے لیے جدوجہد پر آمادہ نہیں کرسکتے تھے۔

یہ اسلام ہی تھا جس کے لیے مسلمانان ہند نے پاکستان کے قیام کے لیے وہ قربانیاں دیں کہ جس کی مثال مشکل سے ملتی ہے مسلمانوں کی اس تحریک میں اسلام جسم میں روح کی طرح تھا جس نے قربانیوں کی وہ مثال پیش کی کہ پاکستان بنگال، پنجاب، سندھ، بلوچستان، سرحد اور کشمیر میں بن رہا تھا مگر یہ جانتے ہوئے بھی یوپی اور سی پی بلکہ برصغیر کے ہر علاقے کے مسلمان اپنا سب کچھ قربان کررہے تھے، وہ جانتے تھے کہ وہ جن علاقوں میں رہ رہے ہیں اور پاکستان کی جدوجہد کررہے ہیں وہ علاقے پاکستان میں شامل نہیں ہورہے ہیں وہ یہ بھی جانتے تھے کہ پاکستان بننے کے بعد ان کا یہاں زندگی گزارنا ہندو اجیرن بناکر رکھ دیں گے مگر وہ یہ سب ایک عبادت سمجھ کررہے تھے وہ اسلام کے لیے ایک ریاست کا حصول اپنے عقیدے کا حصّہ سمجھ رہے تھے۔ لاکھوں شہداء اپنے خون اور لاکھوں بہنیں اور بیٹیاں اپنی عصمتوں کی قربانیاں اس پاکستان کے گلشن کو سیچنے کے لیے دے رہی تھیں ۔

یہ وہی اسلام کے شیدائیوں کی اولادیں ہیں جو کبھی مسکان خان کے روپ میں اپنے حجاب کو اپنے عقیدے کو بچانے کے لیے ہندوتو ا کی فسطائیت کے سامنے نعرہ تکبیر بلند کرتی ہے، کبھی کشمیر کی وادیوں میں ہندستانی فوج کے سامنے سید علی گیلانی اپنی پیرانہ سالی میں بھی مزاحمت کا علم بلند کرتاہے۔ یہ وہی سپوت ہیں جن کے آباواجداد نے پاکستان کے قیام کے لیے قربانیاں دیں تھیں انہی کا ہم پر احسان ہے کہ پاکستان کی صورت میں آج ایک آزاد اسلامی ملک ہے جس میں ہم آزاد ی سے زندگی گزار ر ہیں ہیں مگر افسوس آج ہم پر کالے انگریز مسلط ہیں جس کی وجہ سے آج پوری قوم غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے ۔ آزادی کے بعد سے لےکر آج تک وہاں کے کروڑوں مسلمان ظلم کی چکّی میں پس رہیں ہیں ہم نے ان کی قربانیوں کو فراموش کردیا ہے آج عدالتیں وہاں حجاب پر پابندی لگارہی ہیں مگر اس پر ہماری حکومت نے ایک رسمی اور پھسپھسا سا احتجاج ان کے سفارتخانے کے ملازم کو طلب کرکے ریکارڈ کرادیا ہے۔

حجاب پر پابندی کا نوٹیفیکیشن اب کرناٹک کے علاوہ بھی دیگر بھارت کے بہت سارے شہروں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں آ چکا ہے بی جے پی کی انتہا پسندی بڑھتی جارہی ہے اب تو ہندوتوا کے غنڈوں نے مساجد سےلاؤڈ اسپیکر وں پر اذان دینے پر بھی پابندی کےلیے علاقوں کے تھانوں میں نوٹس جمع کرادیا بلکہ انہوں نے مساجد کے بالمقابل عمارتوں پر لاؤڈ اسپیکر نصب کردئیے ہیں اور یہ دھمکی دی ہے کہ جب اذان ہوگی تو ہم لاؤڈ اسپیکروں سے گانے بجائیں گے کئی جگہوں پر نماز جمعہ کے اجتماعات کو بزور قوت روکا بھی ہے لیکن ہوا کا رخ یہ بتارہا ہے کہ ہندستان اب خالص ہندو ریاست بننے جارہی ہے جس میں غیر ہندو کی کوئی گنجائش نہ ہوگی۔ اس نتاظر میں اگر پاکستان کی آنے جانے والی حکومتوں کا جائزہ لیا جائے تو اسلام کی بنیاد پر قائم ہونے والی اس ریاست کو ستّر سال سے زیادہ بیت چکے ہیں مگر یہاں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جس میں ایک دن کے لیے یہاں اسلام نافذ ہوا ہو لیاقت علی خان نے قرار داد مقاصد پاس کی لیکن اس کے بعد ریاست کو متواتر سیکولر ازم کی دلدل میں دھکیلا جارہاہے۔

ہر آنے والا دن پاکستان اپنے مقصد وجود اور منزل یعنی اسلام سے دور ہوتا چلا رہا ہے یہاں روز بروز سیکولرازم پھل پھول رہاہے ہر ایک نقش کو ریاست کی در و دیوار سے کھرچ کھرچ کر نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جو لوگ اسلام کے نظام کے لئے اس ریاست میں جدوجہد کررہے ہیں وہ تعداد میں تو نہایت مختصر ہیں مگر وزن میں اوروں سے زیادہ ہیں کیوں کہ ان کا مقصد عظیم ہے لیکن جو لوگ اس ملک میں انفرادی طور پر اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کررہے ہیں ان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ کام ایک بھر پور اجتماعیت کا تقاضا کرتاہے۔ ایک جمے جمائے نظام کی جگہ دوسرا نظام قائم کرنا ماضی میں بھی اجتماعی جدوجہد سے ہوا ہے اور اب بھی اجتماعی جدوجہد کے زریعے ہوسکتاہے۔ اس کی مثال ہندستان میں دیکھی جاسکتی ہے تمام ہندو ، ہندوتوا کا حصّہ بن کر اجتماعی طور پر جدوجہد کررہے ہیں کہ ہندستان کو صرف ہندو ریاست بنائیں اب انہوں نے اس کام کےلیے حکومت کی باگیں اپنے ہاتھ میں لے لی ہیں یہ کام پاکستان میں بھی ہوسکتاہے۔

اس کے لیے حکومت کی باگیں اللہ کے ان بندوں کے سپرد کرنا ہونگی جو صالح ہوں۔ اسلام کے مکمل تصّور کو عام کرنا ہوگا بدقسمتی سے پاکستان میں اکثریت نے اسلام کو مختلف خانوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ یہ تقسیم اسلام کے مزاج کے منافی ہے تعجب ہے ہمارا دشمن اس بات سے ہم سے زیادہ اچھی طرح واقف ہے اور ہمارے لیے اسلام کو مختلف خانوں میں بانٹنے کا کھیل کھیلتاہے اور ہم اس کھیل کا حصّہ بن جاتے ہیں ۔ جب تک ہم ان خانوں میں مقید اسلام کو باہر نہیں لائیں گے ہماری دنیا اور آخرت میں بہتری کی کوئی صورت نہیں ہے اس لیے کہ ایک بہت بڑا عہد تھاجو ہمارے آباو اجداد نے قیام پاکستان کے لیے خدائے ذوالجلا ل سے کیا تھا اب وہ عہد ہم پر منتقل ہوچکا ہے اس عہد کو وفا کرنے کی زمّہ داری ہم سب مسلمان پاکستانیوں کی ہے بصورت دیگر اللہ ہم سب کو عہد شکنی کی سزا سے بچائے۔