یہ دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہوتی ؟

آپ کچھ لمحوں کے لیے یہ تصور کریں کہ آپ بلوچستان کہ ایک فوجی کیمپ میں بیٹھے ہوئے ہیں پتھروں کا چولہا بنا کر اوپر رکھی ہوئی چائے دھیمی آنچ پر اُبالے لے رہی ہے فضاء سوگوار سہی لیکن اس پر ایک خاص قسم کا سکوت طاری ہے، بلند و بالا پر بتوں کے درمیان اُڑتی کونجیں اور بگلے روئی نما بادلوں کی مانند نظر آ رہے ہیں کچھ فوجی اپنے گھر والوں کو یاد کرتے ہیں اپنے بٹوے میں لگی اپنی بیوی بچوں کی تصویروں کو تکتے ہیں کہ اچانک فضا زور دار دھماکوں سے گونج اٹھتی ہے۔

وطن کے دفاع میں بیٹھے دور دراز علاقوں میں یہ جوان فوراً دہشت گردوں کے آگے سینہ سپر ہو جاتے ہیں بے جگری سے لڑتے ہوئے وطن کہ کام آتے ہیں اور ہمارے سینوں میں دھڑکتا دل خون کی روانی کو مزید تیز کر کے ان کی شہادتوں پر ہمیں فخر کا موقع عطا کرتا ہے ہم عشروں سے یہی کرتے آرہے ہیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے اتنی جراؐت کرتا کون ہے اور فورسسز پر حملہ کرنے کے لیے ان دہشت گردوں کو لاکھ دو لاکھ کی کلاشنکوف فراہم کرتا کون ہے۔

اس کا نہایت سادہ سا جواب ہمیں سننے کو ملتا رہتا ہے کہ یہ سب ہندوستان کر رہا ہے دہشت گردوں کو اسلحہ انڈیا فراہم کر رہا ہے کیا ہندوستان کا کوئی c130 طیارہ ملکی سرحد کو عبور کر کے آتا ہے اور آسمان سے یہ اسلحہ زمین پر پھینک کر چلتا بنتا ہے اگر ایسا نہیں تو پھر یقیناً زمینی راستوں کو استعمال کیا جاتا ہے جہاں پر ہماری مستعد اور چاک و چوبند فورسسز موجود ہوتی ہیں سچ تو یہ ہے کہ ہم نے ہر دور میں اسلحہ اپنے ملک میں خود جمع کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا افغان وار میں ہم روسیوں کی بنائی ہوئی کلاشنکوف انہی کے خلاف استعمال کرتے رہے شیخ رشید صاحب یہ بیان دے کر بری الزمان ہو گئے کہ دہشت گرد نیٹو کا چھوڑا ہوا اسلحہ استعمال کر رہے ہیں تو کیا نیٹو سارا اسلحہ پاکستان کے دہشت گردوں کو بیچ گیا ہے اور حکومت مکمل طور پر بے خبر رہی۔

کسی بھی ملک میں جب کوئی مزاحمتی تحریک جنم لیتی ہے تو اس تحریک کی بنیادی اکائی افرادی قوت نہیں بلکہ وہ اسلحہ ہوتا ہے جسے حکومت کے خلاف مزاحمت کار استعمال میں لاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں خالصتان جیسی مزاحمتی تحریکیں زیادہ پنپ نا سکیں کیوں کہ ان کے پاس اسلحہ نا ہونے کے برابر تھا گنڈاسے دو نالی بندوق اور ایک آدھ آٹومیٹک گن کے ساتھ خالصتان نہیں بنایا جاسکتا تھا چونکہ ہندوستان نے کبھی اپنے ملک میں اسلحے کا ذخیرہ بننے ہی نہیں دیا جو اس کی فوج کے خلاف استعمال ہو سکے میں نے ایک گورچانی سردار سے پوچھا کہ آپ باہر نکلتے وقت گن برداروں کا قافلہ کیوں ساتھ رکھتے ہیں کیا آپ کی جان کو کسی سے خطرہ ہے تو وہ بولے نہیں کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے یہ ہماری روایت ہے اگر آپ کلاشنکوف کو روایت کا نام دے کر جتھے در جتھے مسلح افراد ساتھ لے کر چلیں گے تو یہ باغی ہونے کے بعد ظاہری بات ہے حکومت کے خلاف ہی استعمال ہوں گے اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا سبب بنیں گے۔

حال ہی میں لاہور کی ایک عدالت نے شہر کے معروف ڈان کے بیٹوں کا اسلحہ لائسنس منسوخ نا کرنے کا وزارت داخلہ کو حکم نامہ جاری کیا ہے اور عام آدمی انہیں غنڈوں کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ہماری حکومت کو چاہیے کے وہ دہشت گرد ختم کرنے کی بجائے ان کا اسلحہ ختم کر دیں ملک قیمتی جانیں گنوائے بغیر ویسے ہی امن کا گہوارہ بن جائے گا اور ہمیں یہ سوال پوچھنے کی بھی نوبت نہیں آئے گی کہ یہ دہشت گردی آخر ختم کیوں نہیں ہوتی۔