یوم یکجہتی کشمیر

پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ تمام مسائل کی بنیادکشمیر کا تنازعہ ہے ۔کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے بھارت نے اس پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اس بنا پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔کشمیر کے مسئلے کا آغاز سن 1946 میں ہی ہو گیا تھا جب انگریز حکومت نے مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو اس وقت کے 75 ہزار روپے کے عوض ہندو مہاراجہ کے ہاتھ فروخت کر دیا.

تقسیم ہند کے موقع پر مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہوئے فطری طور پر کشمیر بھی پاکستان کے حصے میں آنا تھا مگر ہندو مہاراجہ نے عوام کی رائے کی پرواہ کیے بغیر چند شرائط پر بھارت کے ساتھ الحاق کر لیا جس پر کشمیری مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور وہ سراپا احتجاج بن گئے مسلمان راجہ کے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے . انگریز حکومت نے مجرمانہ طور پر بھارت کا ساتھ دیا اور گرداس پور کا علاقہ جو پاکستان میں شامل ہونا تھا بھارت کو دے دیا. گرداس پور کے راستے بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہوگئیں۔

کشمیری عوام اپنے حقوق کی خاطر بھارتی فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ان کی مدد کے لیے قبائلی علاقے کے مجاہدین بھی پہنچ گئے اس طرح قیام پاکستان کے آغاز میں ہی کشمیر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ مجاہدین نے بھارتی فوج کے خلاف لڑتے ہوئی کشمیر کا ایک حصہ ان کے قبضے سے آزاد کرا لیا جو آج آزاد کشمیر کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ قریب تھا کہ بھارت کے دوسرے حصوں تک بھی جنگ پھیل جاتی کہ بھارت کے وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں جاکر جنگ بندی کی درخواست کی اس پر عالمی برادری کی مداخلت پر مجاہدین اور بھارت میں جنگ اس شرط پر روک دی گئی کہ بھارت کشمیر میں رائے شماری کروائے گا اور کشمیر کا پاکستان یا بھارت سے الحاق اس رائے شماری کی بنیاد پر ہوگا.بعد ازاں بھارت نے امن کا فائدہ اٹھا کر کشمیر میں اپنی فوج کی تعداد بڑھا لی اور رائے شماری کے وعدے سے مکر گیا بھارت نے زور زبردستی سے کشمیر پر اپنا قبضہ مضبوط کرلیا۔ اور مزاحمت کرنے والے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔

اقوام متحدہ نے کشمیر کو متنازعہ علاقے قرار دیدیا اور بھارت سے کہا کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کرائے تاکہ کشمیری اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر سکیں مگر بھارت نے ایسا کرنے سے گریز کیا اور ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے کشمیر پر قبضہ مضبوط کرلیا۔اب تک اقوام متحدہ میں کشمیر میں رائے شماری کرانے پر اٹھارہ قراردادیں پیش کی جاچکی ہیں مگر بھارت اور اس کے اتحادی ممالک نے نہ صرف ان قراردادوں کو مسترد کر دیا بلکہ اگست2019 میں بھارت نے اپنی پارلیمنٹ کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی ختم کر دیا ہے اور اپنے طور پر کشمیر کو اپنے اندر ضم کر کے وہاں اپنے قوانین نافذ کر دیئے ہیں۔ اس مقصد کے لیے مسلمان آبادی کو دبانے کے لیے آئے دن انسانی حقوق کی خلاف ورزی معمول کی بات ہے۔

اگست2019 سے کشمیر کو لاک ڈاون کے ذریعے ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا گیا اور کشمیریوں کے اظہار رائےپر پابندی لگانے کے لیے تمام خبر رساں ایجنسیوں کا کشمیر میں داخلہ بند کر دیا گیا اس کے ساتھ ہی انٹرنیٹ پر بھی پابندی لگا دی گئی تاکہ بیرونی دنیا سے کشمیر کا رابطہ کاٹ دیا جائے اور وہاں پر ہونے والے ظلم و ستم کے بارے میں بیرونی دنیا کو کوئی معلومات حاصل نہ ہو سکیں۔دنیا بھر میں ظلم و ستم کا شکار ہونے والے مسلمانوں میں کشمیریوں کا نام سر فہرست ہے جو ستر سال سے بھارت کے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔

کشمیر کے مسلمان کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں دوسری طرف پاکستان کے عوام بھی کشمیر کے لئے گہرا درد رکھتے ہیں۔ پاکستان اور کشمیر ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ قائداعظم کے فرمان کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اس بنا پر پاکستان اور کشمیر کا بچہ بچہ بھارت سے آزادی چاہتا ہے۔ آزادی کے متوالے نوجوانوں کو کچلنے کے لیے بھارتی حکومت نے فوج کی ایک بڑی تعداد کشمیر پر مسلط کر رکھی ہے اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کچل کر انہیں بھارت کے ساتھ رہنے پر مجبور کیا جائے مگر اس ظلم و جبر کے نتیجے میں ہر آنے والا دن کشمیریوں کے جذبہ حریت کو بڑھا رہا ہے جس کا اندازہ بھارت کے بڑھتے ہوئے ظلم و ستم سے کیا جا سکتا ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج نے گزشتہ برس 2021 میں 210 کشمیریوں کو قتل کیا میڈیا سروس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ بھارتی فوج نے 65 کشمیریوں کو جعلی مقابلوں میں قتل کیا جب کہ وہ زیر حراست تھے۔بیان میں بتایا گیاہےکہ بھارتی فوج نے صرف دسمبر 2021 میں 31 کشمیریوں کو قتل کیا،بھارتی فورسز کے بدترین تشدد کے باعث 6افراد زخمی ہوئے جبکہ 94 کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا

مقبوضہ وادی میں قابض فوج نے 11 گھروں کو تباہ کیا رپورٹ میں حریت لیڈر سید علی گیلانی اور محمد اشرف صحرائی کا بھی حوالہ دیا گیا جو گزشتہ برس علالت کے باعث انتقال کر گئے تھے۔ سید علی گیلانی انتقال کے وقت بھی نظر بند تھے پیرانہ سالی کے باعث وہ شدید علیل تھے۔ جب کہ محمد اشرف صحرائی بھی پولیس کی حراست میں موجود تھے۔

سید علی گیلانی کے خاندان والوں نے بھارتی فورسز پر الزام عائد کیا کہ ان کی تدفین کے لیے زبردستی کہا گیا کہ رات کے اندھیرے میں کی جائے۔ جس کے باعث شدید سردی میں رات کے اندھیرے میں تدفین کی گئی تاکہ جنازے میں عوام کی شرکت نہ ہو سکے۔بھارتی حکام نے سید علی گیلانی کے نماز جنازہ میں عوام کی شرکت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد شہریوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔سال بھرمیں مجاہدین پر فوج اور پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال ،کارروائیوں اور کریک ڈاؤن کے نتیجے میں 487 افراد زخمی ہوئے اور 2716 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

مقبوضہ وادی میں بھارتی حکام نے 45 ہفتوں سے تاریخی جامع مسجد سرینگر میں جمعہ کی نماز ادا کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔بھارتی حکومتی فورسز نے اگست 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سےاب تک پانچ سو پندرہ کشمیریوں کو قتل کیاہے۔ گزشتہ 23 برسوں کے دوران 95 ہزار 948کشمیری جاں بحق ہو چکے ہیں۔

مسئلہ کشمیر کے حل ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارتی حکومت کی بدنیتی اور ہٹ دھرمی کے علاوہ عالمی برادری کی بے حسی اور لاپرواہی بھی ہے۔ حکومت پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے مگر صرف زبانی کلامی آزادی کشمیر کی حمایت کر دینا کافی نہیں ہوگا اس کے لیے عالمی سطح بہت زیادہ جدوجہد اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو نمایاں مقام دینا ہوگا اولین ترجیح کی بنیاد پر برادر ممالک کو اس بات پر آمادہ کرنا ہوگا کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دے اور کشمیر میں رائے شماری کروائے۔

اقوام متحدہ کا ادارہ کشمیر میں راۓ شماری کرانے میں نہ صرف ناکام ہے بلکہ بھارت کی ظلم و ستم کو روکنے میں اقوام متحدہ کوئی موثر اقدام نہ کر سکی . 5 فروری کے دن عالمی سطح پر پاکستان اور دیگر ممالک میں کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے تاکہ انہیں بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات دلانے کے لئے اقوام متحدہ کی توجہ دلائی جائے اور عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔

کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ستر برس سے زائد عرصہ پرانا ہے۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا اس دوران کئی عالمی مسئلے اپنے انجام کو پہنچے حال ہی میں افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا مذاکرات کے ذریعے طے پایا اور یہ سارا معاملہ عالمی برادری کی کوششوں سے ممکن ہوا بھارت کو بھی کشمیر سے نکلنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے اس کے لیے اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے کیونکہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگوں کا سبب بن چکا ہے اور اب بھی یہ عالمی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیر سے اپنی فوج کو واپس بلائے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کراکے کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت استعمال کرنے دے۔