ایمان کی دولت انمول نعمت

خالق کائنات مالک عرض و سماء اللہ ربّ العزت کا امت مسلمہ پر احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں انسان بنایا، اور مسلم گھرانے میں اورمسلمان پیدا فرمایا۔ اگر اللہ پاک ہمیں کسی حیوان یا درندے کے روپ میں پیدا فرمادیتے تو ہمارا کیا ہوتا، اور اگر ہمیں کسی غیر مسلم کے گھرمیں پیدا فرمادیتے تو ہمارا کیا بنتا، اور اس صورتحال میں ہم ایمان لانا بھی چاہتے تو ہمیں کتنی جدوجہد کرنا پڑتی، مختلف مذاہب کی ریسرچ کے لیے ہرمذاہب کی کتابوں کی چھان بین کرنا پڑتی، جوکہ ایک انتہائی مشکل کام تھا کیونکہ ہر مذہب ہمیں اپنی جانب کھینچتا اور شاید ہم دین حق اسلام کی روشن تعلیمات سے محروم رہ جاتے۔

بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں میں سب سے قیمتی دولت ایمان کی دولت ہے ، جوکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بغیرکسی جدوجہد کے میسر فرمائی ہے ، اور اس عظیم نعمت پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے۔ اس کے علاوہ حق تعالیٰ شانہ نے ہمیں انواع و اقسام کی نعمتوں سے نوازا جن کے شمار سے ہماری حقیر عقل مکمل طور قاصر ہے ۔ کھانے پینے کی چیزیں نعمت تو ہیں ہی لیکن کیا ہم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ بھوک اور پیاس بھی نعمت خداوندی ہیں۔ اگر بھوک اور پیاس نہ ہو تو دنیا کی بہترین سے بہترین کھانے پینے کی چیزیں اپنی اہمیت کھو بیٹھیں اور اعلیٰ سے اعلیٰ انواع و اقسام کی چیزیں مٹی معلوم ہوں۔ اس بات کا اندازہ ہم کو دوران روزہ بخوبی ہوتا ہے کہ تمام دن بھوک اور پیاس کی شدت برداشت کرنے کے بعد جب ہم روزہ کھولنے کے لئے بیٹھتے ہیں تو ایک کھجور اور ایک گھونٹ پانی نوش کرتے ہی خدائے تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہیں، جب کہ عام دنوں میں ہم شکم سیر ہوکر بھی کھانے میں طرح طرح کے نقص نکالتے ہیں اور خاص طورپر تقاریب میں تو یہ بات بہت زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے ۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کھاتے پیتے ہیں، اس کا اخراج بھی نعمت عظیم ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ اس نعمت سے نہ نوازا ہوتا تو ہم طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ، جس کا اندازہ ہمیں نظامِ ہاضمہ خراب ہو جانے پر ہوتا ہے ، یعنی چند گھڑیوں کے اندر ہی ہمیں یہ دنیا بیکار نظر آنے لگتی ہے ۔ ہم میں سے اکثر لوگوں کو یہ گلہ ہے کہ ہم سے زیادہ مصیبت کا مارا اور پریشانی میں مبتلا کوئی دوسرا نہیں ہے ، جب کہ درحقیقت ہم سا دولت مند کوئی اور نہیں ہے ، یہ ہاتھ پاؤں، آنکھ اور ناک کسی بھی طرح لاکھوں اور کروڑوں کی دولت سے کم نہیں ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے چند ایک ہیں، جب کہ ان کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے ۔ اگر ہم ناشکری کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور خلوص دل سے دعا مانگیں تو ہمارے مصائب و آلام ضرور دُور ہو جائیں گے اور اگر ہم ناشکری ہی کرتے رہے تو ہماری دنیا و آخرت دونوں خراب ہو جائیں گی۔

درحقیقت ناشکری بہت بڑی لعنت ہے ، اس سے بنے بنائے کام بگڑ جاتے ہیں۔ یہاں واضح رہے کہ جو شخص انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ خدائے تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہوسکتا۔ دراصل جو بھی نعمتیں ملتی ہیں اس کے ذرائع تو مختلف ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ حق تعالیٰ کی عطا ہوتی ہے ۔ جس طرح راحت و خوشحالی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں، اسی طرح تکلیف اور پریشانی بھی اسی کی جانب سے نازل کردہ ہیں، جو کبھی ہمارے گناہوں کے پاداش میں نازل ہوتی ہیں اور کبھی ہماری آزمائش کے لئے ۔ قرآن کریم میں ہمیں آزمائش اور مصیبتوں سے نجات کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے صبر کرنے کا حکم اور دعاؤں اور نمازوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

حق تعالیٰ نے اپنا یہ اصول بھی واضح طورپر بیان فرما دیا ہے کہ جب اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو وہ ان میں مزید اضافہ فرمائے گا۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتیں ہیں، لیکن جو سب سے بڑی نعمت ہمیں عطا ہوئی ہے وہ ’’ایمان‘‘ ہے ۔ اس نعمت پر ہماری نظر اس لئے نہیں جاتی کہ ہم مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں، اس لئے ازخود یہ نعمت ہمیں حاصل ہو گئی، جس کے سامنے دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں، اس نعمت پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے ۔ ایمان اتنی قیمتی دولت ہے کہ اس کی جتنی بھی حفاظت کی جائے کم ہے ، ہمیں ہر وقت اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے ۔

حصہ
mm
رانا اعجاز حسین ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں وہ مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔