“فرض”

“ارے رضیہ سُنتی ہو یہ جو مہینہ ہونے کو ہے سڑکوں پہ بیٹھے ہیں کون ہیں یہ؟” خالہ شکورن نے اپنی پڑوسن خالدہ کی بیٹی رضیہ سے پوچھا! “کون جماعت اسلامی والے”؟ رضیہ نے خالہ سے مسکرا کر سوال کیا۔

“ارے ہاں وہی عجب مٹی کے بنے ہیں نہ سردی لگتی ہے نہ بارش سے گھبراتے ہیں نہ طوفان سے ۔کہتے ہیں ہم کراچی والوں کے لیے بیٹھے ہیں؟” خالہ نے اپنی شہادت والی انگلی ٹھوڑی پہ جمائی۔

“ہاں خالہ بڑے جی دار ہیں یہ لوگ۔ حق کی خاطر ڈٹ کے بیٹھے ہیں ۔”رضیہ نے بتایا

“ہائیں یہ موا حق کون ہے اب”۔خالہ پریشان ہونے لگیں”، موا حق نہیں خالہ ہمارے مسائل کے حل کے لیے نکلے ہیں یہ لوگ،۔ہم جو گندگی کے ڈھیروں پہ زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہیں۔بجلی ،پانی، گیس کےبل بھی بھرتے ہیں اور یہ نعمتیں ہمیں میسر بھی نہیں،ہم ٹیکسوں کی شکل میں پیسے بھرتے ہیں جو حکومت اپنے پیٹ میں ڈال لیتی ہے ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں تو اب یہ لوگ ہمارے لیے کھڑے ہیں۔”رضیہ نے سمجھایا.

“پر بِٹوا اتنے عرصے سے تو کچھ نہ ہوا اب کیا ہوجائے گا۔”خالہ شکورن نے مایوسی سے کہا۔” یہی تو بات ہے سوچنے کی خالہ کہ اتنے عرصے ہم ان مخلص لوگوں کو پہچان ہی نہ پائے جنھوں نے آندھی طوفانوں میں،بارشوں میں جب گھروں میں پانی گُھس آیا تھا ،سامان تک ڈوب گئے تھے ہمیں سہارا دیا ،کرونا میں جب گھر گھر ہمارے جیسے مستحق افراد جن کے روزگار ختم ہو گئے تھے راشن پہنچایا۔ اللہ کے بندوں کی خدمت میں لگے رہتے ہیں جہاں تک ممکن ہوتا ہے۔ اور آج دیکھیں کوئی کالا قانون اپنے مطلب کا بنا لیا ہے یہ سندھ کی حکومت نے کہ جو تھوڑے بہت ہمارے مسائل حل ہو جاتے تھے وہ بھی نہ ہوں اور ہر جگہ وہ اپنی مرضی کے نکمے لوگ ہی لے آئیں جنھوں نے نہ کل ہمارے لیے کچھ کیا نہ آج کریں گے اب اسی لیے کھڑے ہیں یہ اللہ کے بندے نہ موسم کی سختی دیکھ رہے ہیں نہ گھر بار ،کہتے ہیں سارا کراچی ہم سب کا گھر ہے ہمیں مل جل کر رہنا ہے اور ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے ہیں کہ پھر سے ہمارا شہر روشنیوں کا شہر کہلائےخوف اور گندگی کا شہر نہیں۔اب ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کا ساتھ دیں اور ان کی فتح و کامرانی کے لیے اللّٰہ سے دعا کریں ۔”رضیہ یہ سب کہہ کر خاموش ہو گئی اس کی آنکھوں میں آس کے جگنو چمک رہے تھے۔

“ٹھیک کہتی ہو بٹیا اب میں بھی ان کے ساتھ ہوں اور محلے میں جا کے سب کو ان کا ساتھ دینے کا کہتی ہوں۔”

خالہ شکورن نے تو اپنا فرض پہچان لیا ! کیا آپ اب بھی نہیں سمجھے؟؟۔