رشتوں کو دیمک کی طرح چاٹنے والے عوامل

آج کل ہر دوسرا گھر بے چینی اور نفرت کی آماجگاہ بنا ہوا ہے،مادیت پرستی نے رشتوں کی خوبصورتی ،خلوص ومحبت چھین لی ہے یوں خاندان جو سکون کا باعث ہوتا تھا ،محض بوجھ بن کہ رہ گیا ہےاور ہر کوئی آدم بے زار نظر آتا ہے خصوصاً نئی نسل جن کی قوت برداشت ویسے ہی کم ہے ،رشتوں کے ان قلادوں کو اپنی گردنوں سے اتار پھینکنے کے لئے بے چین ہے۔جس کو دیکھیں وہ اپنوں سے کہیں دور جا بسنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔لیکن یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ ان خرابیوں کی اصلاح کی جائےجو ہم سے رشتوں کی اپنائیت چھین رہی ہیں۔بڑی حق تلفیوں،حسد،کینہ بغض،غیبت،باہم مقابلہ بازی سے قطع نظر کچھ غیر محسوس رویے بھی دلوں کو پھاڑنے کا کام کر رہے ہیں ۔

اس ضمن میں کچھ مشاہدات پیش خدمت ہیں۔

🚦رشتوں میں سیاست اور حد درجہ ہوشیاری

🚦کسی کا دنیاوی مقام دیکھ کراس کے ساتھ اپنا رویہ طے کرنا (کس کو کتنی عزت دینی ہے)

🚦فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے حسن سلوک (عام سننے کو ملتا ہے کہ فلاں بڑے کام کا ہے اس سے بنا کہ رکھنا پڑتی ہے)

🚦رشتوں کے بارے میں منفی جذبات رکھنا کہ یہ تو اچھے ہو ہی نہیں سکتے جیسے ساس بہو،نند بھابھی وغیرہ،

🚦ان رشتوں کی اچھائی میں بھی ہمیشہ کیڑے نکالنا اور کہنا کہ باہر باہر سے اچھائی کا مظاہرہ ہے یا ضرور کوئی مطلب ہے یا کہیں کچھ ہو تو الزام انہی کو دینا۔۔۔

🚦رشتوں کے بارے میں خوامخواہ میں بد گمان رہنا اور دوسروں کو بھی بد گمان کرتے رہنا(کہ تمہیں نہیں معلوم اندر سے وہ کیسی ہے)

🚦دل سے خلوص ،محبت اور عزت نہ دینا

🚦ہمیشہ دوسروں کو ہی غلط سمجھنا اور خود کو عقل کل سمجھنا

🚦میں اچھا باقی سب خراب سمجھنا

🚦ہر وقت یہ سوچنا کہ دوسرے نے میرا خیال نہیں رکھا اور اپنے گریبان میں نہ جھانکنا

دوسروں کی کمزوریوں پر ہی نظر رکھنا اور اپنی کوتاہیوں سے لاعلم رہنا

🚦کسی کی ناراضگی پر اپنی اصلاح کی بجائے یہ کہنا کہ کسی نے اس کے کان بھرے ہیں(ایسے لوگ کبھی اپنے رویے کی اصلاح نہیں کر سکتے)

🚦ہر بات کا بڑھ چڑھ کر جواب دینا،کتنے تعلقات معمولی باتوں پر درگزر نہ کرنے کی وجہ سے خراب ہوتے ہیں۔

🚦دوسرے کا مؤقف نہ سننا ،نہ سمجھنے کی کوشش کرنا

🚦اپنے بارے میں انتہائی حساس کہ کسی کا معمولی جملہ بھی دل توڑ دے مگر دوسروں کے دل اپنے طعنوں اور بدگوئی سے زخمی کرتے رہنا،پھر یہ سمجھنا کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا

🚦اپنے لئے صحیح غلط کے مستقل اصول طے نہ کرنا ،بس حالات اور رشتوں کے مطابق یہ پیمانے بدلتے رہنا،دن بھر اپنے شوہر کو اس کے گھروالوں کے خلاف کہتے رہنا صحیح،ننھیال کی ہر غلطی پر درگزر کا بھاشن لیکن ددھیال کی زرا بات بھی پہاڑ بنا کر بچوں کے ذہن میں نفرت بھرنا صحیح

🚦ان باتوں کو کتابی سمجھ کر نظر انداز کر دینا

خدارا دوسروں پر چسپاں کرنے کی بجائے تنہائی میں بیٹھ کر زرا غور کریں کہ ان میں سے کونسا رویہ میرے اندر ہے اور آج ہی تزکیہ کا عمل شروع کریں کہ،فلاح پاگیا وہ جس نے اپنا تزکیہ کیا۔

جس طرح خوبصورت پھولوں کے باغیچے میں خودرو جھاڑیاں اگ آتی ہیں اور مستقل ان کی چھانٹ کانٹ کی ضرورت رہتی ہے بالکل اسی طرح ہر شخص جانے انجانے ان رویوں کی لپیٹ میں ضرور آتا ہے لہذا خود احتسابی ضروری ہے۔(جس کو اپنے اندر کوئی خرابی نظر نہیں آتی وہ رب سے دعا کرے کہ اسے اپنی خرابی خود دکھ جائے تاکہ وہ بروقت اپنی اصلاح کر سکے)

اپنی زندگی میں پرانے اور خصوصاً نئے آنے والے رشتوں کو تعصب سے پاک ہوکر دل سے قبول کریں ،ظاہری دکھاوے اور میل ملاپ کی جگہ فطری محبت کا اظہار کریں،رشتے نبھانے میں دکھاوے کی بجائے رب کی رضا و تقویٰ کا لحاظ رکھیں ،دل کو دوسروں کے بارے میں برے خیالات اور بدگمانیوں سے پاک کر کے قلب سلیم بنائیں،آپ دیکھیں گے کہ اسکی روشنی سے خود بخود لوگ آپ کی طرف کھنچے چلے آئیں گے اور جو نہیں آئیں گے ان کا دور رہنا ہی آپ کے لئے بہتر ہے۔